بھکارن کی لڑکی
سچ مان بھکارن کی لڑکی میں دل کی بات سناتا ہوں
تو ہاتھ اپنا پھیلائے ہے اور میں شرمایا جاتا ہوں
تو مجھ کو دعائیں دیتی ہے اور میں آنسو برساتا ہوں
تو جن فاقوں کی ماری ہے میں بھی ان سے ٹکراتا ہوں
پھر تو ہی جی میں سوچ ذرا دوں بھی تجھ کو تو کیا دوں میں
سچ مان بھکارن کی لڑکی تیری ہی طرح مفلس ہوں میں
افلاس کے تانے بانے میں میرا تیرا الجھاؤ وہی
میرے اور تیرے کانٹے پر دکھ اور سکھ کا ہے بھاؤ وہی
تیرے سینے پر چوٹ ہے جو میرے دل میں ہے گھاؤ وہی
تیری جو ٹوٹی کشتی ہے میری ہے شکستہ ناؤ وہی
پھر تو ہی جی میں سوچ ذرا دوں بھی تجھ کو تو کیا دوں میں
سچ مان بھکارن کی لڑکی تیری ہی طرح مفلس ہوں میں
میں جھونپڑیوں میں رہتا ہوں تیرا پل کے نیچے مسکن
دونوں میں طاق نہ محرابیں کیسی بیٹھک کیسا آنگن
پل کے نیچے تاریکی سے کھیلی نہ کبھی سورج کی کرن
اور چاند دریچوں سے مجھ کو دینے آیا نہ کبھی درشن
پھر تو ہی جی میں سوچ ذرا دوں بھی تجھ کو تو کیا دوں میں
سچ مان بھکارن کی لڑکی تیری ہی طرح مفلس ہوں میں
قدرت نے ایک سیاہی سے دونوں کی لکھی ہیں تقدیریں
کھینچی ہیں ایک ہی کاغذ پر افلاس کی دونوں تصویریں
ہاتھوں کی لکیریں ملتی ہیں ماتھے کی ہیں یکساں تحریریں
دونوں کی اشک بھری آنکھیں بد بختی کی ہیں تعبیریں
پھر تو ہی جی میں سوچ ذرا دوں بھی تجھ کو تو کیا دوں میں
سچ مان بھکارن کی لڑکی تیری طرح مفلس ہوں میں
یہ گاڑے کی شلوار تری بوسیدہ اور پرانی ہے
کرتا پھٹ جانے کے باعث تو شرم سے پانی پانی ہے
یہ میری بھی میلی چادر جو میری ماں کی نشانی ہے
بس جاڑوں کی ہے شال یہی برکھا کی مچھر دانی ہے
پھر تو ہی جی میں سوچ ذرا دوں بھی تجھ کو تو کیا دوں میں
سچ مان بھکارن کی لڑکی تیری ہی طرح مفلس ہوں میں
اب تجھ سے رخصت ہوتا ہوں تجھ پر ہو رحمت کا سایا
کس مفلس شاعر کے آگے تو نے بھی دامن پھیلایا
سینے میں داغوں کی دولت آنکھوں میں اشکوں کی مایا
قسام ازل کے ہاتھوں سے بس اس کے سوا اور کیا پایا
پھر تو ہی جی میں سوچ ذرا دوں بھی تجھ کو تو کیا دوں میں
سچ مان بھکارن کی لڑکی تیری ہی طرح مفلس ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.