ایک کھاؤں
دو کھاؤں
یا تین کھاؤں
سننے والے شیخ چلی کی یہ بات ہنسی میں ٹال گئے
تاہم اس نے دجلہ و فرات کا پانی پیا
اور عباسیوں کے اگائے ہوئے اناج سے بنی روٹی کھائی
ایک ایک لقمہ حلق سے اتارتے ہوئے
دوسری روٹی پر جھپٹا
ایک کھاؤں
دو کھاؤں
یا تین کھاؤں
ساری دنیا چوکنی تھی لیکن خاموش
چند بلیاں غرائیں
تو ان کے سامنے کچھ ٹکڑے ڈال دئے گئے
امن عالم کی بقا کے لئے
شیخ چلی کی نظر اب تیسری روٹی پر ہے
اس کا اناج کہاں سے آیا
کن دریاؤں نے اسے گوندھا
آنچ کس چولھے کی لگتی ہے
توا کس لوہے کا بنا ہے
شیخ چلی بھوک بڑھتی ہی جا رہی ہے
سننے والے اس کی بات اب ہنسی میں نہیں ٹالتے
بلکہ سہم جاتے ہیں اور سوچتے ہیں
وہ چوتھی روٹی کون سی ہے
جو شیخ چلی کا لقمہ بننے والی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.