خوش تھی کشتی لگا کر گلے سے ہمیں
یہ ہماری ہم اس کے نگہ دار تھے
ہم مسافر سوار اس میں جتنے بھی تھے
اس کی برقی ادا کے پرستار تھے
اس کو شاید تھا معلوم اس سے فقط
سپرد تفریح کے ہم طلب گار تھے
لے گئی پل میں ان پانیوں تک ہمیں
جو تلاطم کی لہروں سے کف دار تھے
جنگلوں سے بھری سیدھی ڈھلواں پر
حسن روئیدگی کے فسوں زار تھے
دونوں جانب تٹوں پہ سفیدے کے پیڑ
چکنی چکنی سی چھالوں کی دیوار تھے
ہر تنا پھب رہا تھا ہرے سوٹ میں
سبز شاخوں کے پتے چمکدار تھے
پورے جوبن پر آئی ہوئی گھاس تھی
اونچے اونچے زمرد کے انبار تھے
جس طرف بھی کہیں برف کی اوٹ تھی
اوٹ میں سرخ پھلوں کے انگار تھے
سر نکالے ہوئے پتھروں کے کلس
مرغزاروں کے محلوں مینار تھے
مینہ کی بوندوں کے سر ہو رہے تھے قلم
تیز جھوٹ تھے یا تیز تلوار تھے
برق و باراں کا طوفاں جواں سا ہوا
برف کے ساتھ پانی رواں سا ہوا
یہ ہوا تو ہمیں یہ گماں سا ہوا
یہ مناظر تھی ان گھڑسی جن کی پھبن
پر خطر سے کسی فن کا معیار تھے
اک مہم جو مصور کا شہکار تھے
یوں تو ہم بھی مصور تھے فن کار تھے
رنگ و الفاظ کے کیف میں ڈوب کر
خود ہی کو ڈھونڈنے کے طلب گار تھے
خود ہی گرداب تھے خود ہی منجھدار تھے
دشمن جاں ہمارے ہی افکار تھے
پیچ در پیچ دل میں گرفتار تھے
ہم نہ اس پار تھے ہم نہ اس پار تھے
- کتاب : auraq-shumara-number-007-008-ma (Pg. 254)
- Author : Wazeer Aagha,sajjad Naqvi
- مطبع : Daftar Auraq,Chauk Urdu Bazar Lahore (July,augast-1979 Issu,7,8)
- اشاعت : July,augast-1979 Issu,7,8
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.