اب ہم جان گئے ہیں کہ اندھیرے ہمارا مقدر نہیں تھے
بلکہ تم نے شہر کی تمام اسٹریٹ لائٹس بجھا دی تھیں
ہمارا فرسٹریشن تمہاری مکاری ہے کہ ہم سے محبت اور جنس کی
سچی مسرتیں چھین کر تم نے ہمیں بلیو فلم کا عادی بنا دیا
ہمارے حشیش بھرے سگریٹوں کا دھواں تمہاری مشینوں کے عذاب
اور ملوں کی چمنیوں سے نکلنے والے زہر کا نتیجہ ہے
لیکن اب زہر تمہارا مقدر ہوگا کہ ہم توانائی کے ساتھ زندہ رہنے کا گر جان گئے ہیں
اب ہم کانٹنٹ کے خونخوار بھیڑیوں اور سائیبیریا کے
برفانی ریچھوں سے نہیں ڈرتے جنہوں نے پوری دنیا کو نازی کیمپ بنا دیا تھا
اب ہمیں ان مسخرے طوطوں کی دانشوری نہیں چاہئے جو ہزاروں
سال کی رٹی رٹائی باتیں دہرا کر ہمیں علم کے نام پر بے وقوف بنا رہے تھے
پلیٹو بہت بڑا آدمی تھا پھر بھی اپنے دور کی ریپبلکن ہم خود لکھیں گے
ہم معصوم بچے ہیں مگر ہمارے کھلونے توڑ کر تم نے ہمیں گالیاں دینے پر مجبور کر دیا
کل ہم پکنک مناتے مناتے مگرمچھ کے منہ میں چلے گئے تھے
لیکن آج پانیوں پر آگ لگا کر تیرتے رہنے کا فن سیکھ چکے ہیں
کل ہم تم سے بات کرتے ڈرتے تھے لیکن آج
خدا سے ہاٹ لائن پر گفتگو کر رہے ہیں
اگر تم راکٹوں پر بیٹھ کر بھگوڑوں کی طرح چاند اور مریخ کی طرف
جانا چاہتے ہو تو جاؤ ہمیں ہماری زمین اور آنے والا زمانہ چاہئے
رات فاحشہ عورت تھی جو تمہارے ساتھ سوئی رہی
لیکن اب دن نکل چکا ہے اور اس کا روشن سورج
اندھیروں بلیک آؤٹ اور فاحشہ عورتوں کے لئے موت کی علامت ہے
- کتاب : siip (Magzin) (Pg. 181)
- Author : Nasiim Durraani
- مطبع : Fikr-e-Nau ( 39 (Quarterly) )
- اشاعت : 39 (Quarterly)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.