بلائنڈ فالوورس
میں آج تم سے مخاطب ہوں میرے ہم وطنو
کہ طبع شکوۂ غم آج کچھ زیادہ ہے
مزاج اپنا تنک ظرف تو نہیں لیکن
وطن میں زور و ستم آج کچھ زیادہ ہے
میں آج تم سے مخاطب ہوں یوں کہ دیکھتا ہوں
تمہارے پاؤں کھلے ہیں مگر دماغ اسیر
تم اپنی آنکھوں پہ رنگین پٹیاں باندھے
گھروں سے اٹھتے دھوئیں کو بتا رہے ہو عبیر
مچا کے گل کوئی امداد تو نہیں کرتے
بہت عزیز سہی تم کو سرزمیں اپنی
جب آج توپ نہیں ذہن راج کرتے ہیں
تمہارے پاس کوئی سوچ ہی نہیں اپنی
میں آج تم سے مخاطب ہوں یوں کہ ڈرتا ہوں
کسی کے کہنے پہ تم لوگ زہر کھا لو گے
کسی کے ٹوکنے پہ گھر کی وسعتوں کے لئے
تم اپنے صحن کے سب پیڑ کاٹ ڈالو گے
میں آج تم سے مخاطب ہوں یوں کہ جانتا ہوں
تمہاری نفرتوں کا چھور لا شعوری نہیں
جھلستے جسم جنہیں تم الاؤ کرتے ہو
تمہارے گھر نہ جلائیں کوئی ضروری نہیں
ستارہ جس کے تعاقب میں لڑتے بھڑتے ہو
کہیں وہ ٹوٹ کے آنکھوں میں ہی نہ گڑ جائے
جو تم کو دوسروں کی بے بسی پہ آتی ہے
اسی ہنسی پہ پشیماں نہ ہونا پڑ جائے
سوال فاقہ و ملبوس پوچھنے پہ وہ لوگ
مجازی خواب کی تصویر پیش کرتے ہیں
تمہیں پتہ ہے جنہیں تم خدا سمجھتے ہو
تمہارے سوچنے اور بولنے سے ڈرتے ہیں
کوئی بھی ظلم کرے اس پہ اعتراض کرو
کہ اعتراض بغاوت نہیں حفاظت ہے
کہ اعتراض گواہی ہے زندہ ہونے کی
کہ اعتراض مساوات کی علامت ہے
اے میرے پیارے وطن واسیو خدا کے لئے
دل و دماغ تم اپنا ذرا کشادہ کرو
اجالا کہنے سے پہلے تم اس کو دیکھ تو لو
دیوں میں آگ لگا دی گئی ہے بے خبرو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.