اپنی جوانی سے تنگ آ کر
میں نے بڑھاپے کو خط لکھ دیا ہے
میں نے اپنے تخیل سے ایک عورت
تخلیق کی ہے بالکل
ویسی جیسی مجھے چاہیے تھی
میں نے ایک کمرہ دریافت کر لیا ہے
جہاں ایک زندہ قبر میں
میں نے اپنے سارے راز دفنا دئے ہیں
میں اپنے دکھوں کو اکٹھا کر کے
ایک نئی نظم کی بنیاد رکھوں گا
اور اسے گنگناتے ہوئے
خود کو ایک بوسے سے نوازوں گا
سوچتا ہوں میں ایک آخری ملاقات کروں
اپنی جوانی سے اور اسے بڑھاپے سے ملواؤں
لیکن ڈر ہے کہیں وہ خفا ہو کر میرے
سارے راز نہ کھول دے
میری زندگی بھی مجھ سے تنگ آ کر
گھر کی دہلیز پر دھرنا دئے بیٹھی ہے
وہ ایک خوش گوار شروعات کا
مطالبہ کر رہی ہے
گلی کے کنارے بیٹھے فقیر کے
چہرے سے زندگی کی
حیوانیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
میں اب وہ گالی ایجاد کرنا چاہتا ہوں
جو میں زندگی کی حیوانیت
کو تحفہ کر سکوں
شاید اب تمام اداس لوگوں کو
ایک نئے جزیرے کی طرف ہجرت کرنی چاہیے
اور خوشیوں کا ایک پرچم اس پر لہرا کر
غموں کو ایک بوسے کے ساتھ
الوداع کہنا ہوگا
مگر سپنے دیکھ کر خود کو
دلاسہ دینے کی عادت
میں اب ترک کر چکا ہوں
دروازے کی دستک نے مجھے اور
اداس کر دیا ہے
پہلی بار میرے خط کا جواب
اتنے جلدی آ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.