بقراط بہت کھاتا تھا
ہم نے محبوب کے ایوان میں جا کر دیکھا
چین میں مصر میں ایران میں جا کر دیکھا
روس میں شام میں سوڈان میں جا کر دیکھا
اور پھر خانۂ سلطان میں جا کر دیکھا
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
جب ہوئی خشک تو محبوب کی کاکل نے کہا
وہ جو میکے گئیں ان سے یہی بابل نے کہا
اوکھلے والوں سے جمنا کے نئے پل نے کہا
اور سنتے ہیں کہ ببو سے یہ عبدل نے کہا
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
روٹیاں بیٹھ کے ہوٹل میں پکاتا ہے کوئی
مدرسے میں کوئی پڑھتا ہے پڑھاتا ہے کوئی
اپنی ڈھولک لیے دربار میں گاتا ہے کوئی
اور ڈفلی سر بازار بجاتا ہے کوئی
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
تجھ کو فرصت ہی نہیں اپنے جہاں سے محبوب
تو نکلتا ہے کبھی اپنے مکاں سے محبوب
پھر یہ الہام ہوا تجھ کو کہاں سے محبوب
میں نے اکثر یہ سنا ہے تری ماں سے محبوب
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
فاقہ کر کے نہ بڑھاپے میں جوانی ڈالو
پیٹ میں پہلے مرے کچھ تو بھوانی ڈالو
پھر گلے میں مرے الفت کی نشانی ڈالو
گھی مرے کھانے میں کچھ اور ممانی ڈالو
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
کھانے پینے سے جو مہلت کبھی پا جاتا تھا
ہر مورخ سر تاریخ پہ فرماتا تھا
وہ ارسطو ہو کہ بقراط بہت کھاتا تھا
اور پھر رات کو اکثر یہی براتا تھا
نوش و خوردن ہے نوشتہ ترے دیوانے کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.