بُرادہ اڑ رہا ہے
برادہ اڑ رہا ہے
ترمرے سے ناچتے ہیں
دیدۂ نمناک میں
براق سائے رینگتے ہیں
راہداری میں
برادہ اڑ رہا ہے
ناک کے نتھنے میں
نلکی آکسیجن کی لگی ہے
گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے
ہچکی سی بندھی ہے
اک غشی ہے
میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے
کیا بتاؤں ماجرا کیا ہے!
زمانوں قبل ہم دونوں کا رستہ
پوٹلی میں ماں کے ہاتھوں کا پکا کھانا
کتابیں اور بستہ ایک تھے
کڑیوں کے رخنوں میں
ہمارے ساتھ چڑیاں
رات دن بسرام کرتی تھیں
ہماری مشترک چہکار تھی
درزی سے کپڑے ایک جیسے سل کے آتے
ایک سے جوتے پہنتے
بوندا باندی میں اکٹھے ہی نہاتے
ہم جدھر جاتے ہمیشہ ساتھ جاتے
رات جب ڈھلتی
تو سنتے تھے کہانی
صحن میں رکھے ہوئے مٹکے کا پانی
پیڑ کی چھتری
ستاروں سے مزین آسماں
ہانڈی کی خوشبو
اور وریدوں کا لہو
المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی
اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے
ہم جڑواں تھے
اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی
سینے سے سینہ
دل سے دل
ماتھے سے ماتھا منسلک تھا!
کیا بتاؤں
کس طرح بجلی لپک کر تار سے نکلی
کنارے اپنا دریا چھوڑ کر رخصت ہوئے
تکلے کا دھاگا کس طرح ٹوٹا
سرہانے خواب جو رکھے تھے
کب بدلے گئے
زینہ کدھر کو مڑ گیا
وہ کون سا ساماں تھا
جس کے پھینکنے پر
دل تو راضی تھا
مگر جس کے اٹھانے سے کمر دکھتی نہ تھی
کس درد کی پرچھائیں تھی
جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی
دھند جو دیوار کے دونوں طرف تھی
اس کا قصہ کیا سناؤں!
کیا بتاؤں
وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر
تیز رو آرا چلایا تھا
ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا
اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے
پیڑ کے سوکھے تنے سے
چھت کی کڑیوں سے
کتابوں اور خوابوں سے
برادہ اڑ رہا ہے
میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.