خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی
خدا سے کیا گلہ بھائی
خدا تو خیر کس نے اس کا عکس نقش پا دیکھا
نہ دیکھا تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ مری توبہ یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے
ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے پیچاں تھے
ابھی کل تک جب اس کے ہونٹ محروم زنخداں تھے
ردائے صد زماں اوڑھے لرزتا کانپتا بیٹھا
ضمیر سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا
مگر اب تو یہ اونچی ممٹیوں والے جلو خانوں میں بستہ ہے
ہمارے ہی لبوں سے مسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے
خدا اس کا خدائی اس کی ہر شے اس کی ہم کیا ہیں
چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرہ ہیں
ہماری ہی طرح جو پائمال سطوت میری و شاہی میں
لکھوکھا آب دیدہ پا پیادہ دل زدہ واماندہ راہی ہیں
جنہیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی گم پیما لکیروں میں
دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں
ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمت آدم
بسے گی اک نئی دنیا سجے گا اک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں گلستاں میں نیا موسم
وہ رت اے ہم نفس جانے کب آئے گی
وہ فصل دیر رس جانے کب آئے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.