جنت کی اجلی چمکیلی دھوپ میں تپ کر
میں ہر بار نکھر جاتا ہوں
اور دھرتی پر
سونے کا اک گرم بدن لے کر آتا ہوں
اس دھرتی کا ذرہ ذرہ
میرے قدموں کی لذت کو پہچانے ہے
چاند کے چہرے پر یہ دھبہ
میرے ماضی کا شاہد ہے
یہ بوڑھی کمزور ہوائیں
اپنی آنکھیں کھو بیٹھی ہیں
پھر بھی مجھ کو چھو کر یاد دلاتی ہیں کچھ بیتی باتیں
اور کہتی ہیں
تم وہ ہو جو ڈیڑھ قدم میں
ساری پرتھوی، ساتوں ساگر
لانگھ گئے تھے
- کتاب : Intekhab-e- kumaar paashii (Pg. 79)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.