Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چاک

MORE BYضیا جالندھری

    ۱

    وہ ازل سے اپنے عظیم چاک پہ

    ممکنات کے انکشاف میں محو ہے

    فلک و زمیں مہ و آفتاب و نجوم کہنہ کرشمے اس کے کمال کے

    ابھی اس کی جدت بے پناہ کو طرح نو کی تلاش ہے

    ابھی عرش و فرش کے ناشنیدہ شمائل اس کی نظر میں ہیں

    ابھی ماورائے خیال و فکر مسائل اس کی نظر میں ہیں

    کرۂ زمیں کو یہ فخر ہے

    کہ یہ خاک خالق خالقاں کو عزیز ہے

    یہیں سانس لیتی حیات جلوہ نما ہوئی

    اسی ارض خاک کو ارمغان نمو ملا

    یہاں زندگی کے وہ رنگ ہیں وہ طریق ہیں

    کہ نہ ان کا کوئی شمار ہے نہ حساب ہے

    انہی پیکروں میں ہے جا بجا وہ طلسم عکس جمال بھی

    جسے دیکھ لینے سے چشم و دل ہمہ حیرت و ہمہ بے خودی

    کہیں کونپلوں کو نکھارتا ہے وہ لذت نم شاخ سے

    کہیں مو قلم سے سنوارتا ہے گلوں میں رنگ نئے نئے

    کبھی بخشا ہے دلوں کو درد کی جاں گداز لطافتیں

    کوئی رنگ ہو کوئی روپ ہو

    کوئی شکل کوئی مزاج ہو

    سبھی اس کے چاک سے آئے ہیں

    ۲

    یہ ساری باتیں سچ ہی سہی

    یہ سارے گمان درست سہی

    پر یہ تو کہو

    قدموں تلے روندے پتوں کی آواز سنی ہے تم نے کبھی

    مرجھائے ہوئے پھولوں سے کبھی بیتی ہوئی رت کی بات ہوئی

    کبھی خوف زدہ نخچیروں کی آنکھوں میں جھانک کے دیکھا ہے

    کبھی دکھتے دلوں کی اس دھڑکن اس دہشت میں بھی شریک ہوئے

    جو ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے احساس سے پیدا ہوتی ہے

    پھٹی پرانی شکلوں والے

    یہ اپاہج یہ معذور ضعیف

    یہ ٹوٹے پھوٹے کھلونے بھی

    اسی چاک سے آئے ہیں کہ نہیں

    کل جن کی حیات تھی برق آسا

    پیوند خس و خاشاک ہوئے

    جنہیں دیکھ کے آنکھیں روشن تھیں

    پنہاں پس پردۂ خاک ہوئے

    وہ نقش گر کامل ہے تو پھر

    جو نقش جمیل بناتا ہے

    جو درد دلوں میں جگاتا ہے

    اسے غارت کیوں کر دیتا ہے

    فن کار ازل کو کیا اپنے کسی نقش پہ اطمینان نہیں

    ۳

    آدمی زادے کسی رنگ کسی نقش کا پابند نہ ہو

    زیست ٹھہرا ہوا جوہڑ نہیں مواج و رواں دریا ہے

    تو ہے اک ٹھہرے ہوئے پل میں طلب گار دوام

    یہ دوام اصل میں ہے بے حسیٔ مرگ کا نام

    آدمی زادے ترے رشتے ہیں بادل کی طرح

    گھر کے آتے ہیں برستے ہیں گزر جاتے ہیں

    یوں بھی ہوتا ہے کہ کچھ دیر ٹھہر جاتے ہیں

    یوں بھی ہوتا ہے کہ بن برسے بکھر جاتے ہیں

    تو کسی رشتے کسی ابر کا پابند نہ ہو

    تو کہ ہے ٹوٹے کھلونے کے لیے گریہ کناں

    دیکھ یہ خاک کے پیکر تو فقط شکل بدل لیتے ہیں

    انہی ٹوٹے ہوئے بے کار کھلونوں کی یہ مٹی پھر سے

    زیست کے چلتے ہوئے چاک کے کام آتی ہے

    پھر نئے روپ میں ڈھل جاتی ہے

    جانے والوں کے لیے

    مٹتے رنگوں کے لیے ٹوٹے کھلونوں کے لیے

    تیرا ہر نوحہ بجا ہے لیکن

    آنے والوں کا بناؤ بھی تو دیکھ

    تازہ کونپل کی نزاکت میں تناؤ بھی تو دیکھ

    کہ وہ فن کار ازل

    آج بھی اپنے اسی چاک پہ ہے

    مأخذ :
    • کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 309)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے