چاند
کروڑوں سال سے تو دیکھتا ہے دنیا کو
زمیں کے بحر و بیاباں کو دشت و دریا کو
یہ دور شام و سحر وقت کا یہ پیمانہ
یہ انقلاب بہار و خزاں کا افسانہ
یہ ساز دہر تری انجمن کا اک نغمہ
نوائے بزم بشر اس چمن کا اک نغمہ
نمود معدن و آرائش نبات ہوئی
تری ہی آنکھوں کے آگے جواں حیات ہوئی
انہی شعاعوں سے چمکا ہے سینۂ عالم
ہوا ہے مطلع انوار دیدۂ آدم
ترے حضور دھڑکتا ہے دل سمندر کا
دمکنے لگتا ہے چہرہ فضائے برتر کا
وہ رہروان عدم قافلے وہ ہستی کے
گزرنے والے مسافر زمیں کی بستی کے
سمائے آنکھوں میں آنکھوں سے پھر نہاں بھی ہوئے
وہ کارواں صفت گرد کارواں بھی ہوئے
مگر تو بزم فلک میں یوں ہی درخشاں ہے
یہ تیری مشعل تاباں ہمیشہ تاباں ہے
تری نگاہوں میں رنگ ازل جھلکتا ہے
ابد کا جام ترے ہاتھ میں چھلکتا ہے
کبھی ہلال کبھی صورت مہ کامل
ہے تیرے راستے میں ارتقا کی ہر منزل
مشابہ حال سے تیرے ہے حال قوموں کا
عروج قوموں کا یا پھر زوال قوموں کا
یہ زندگی بھی ہے گویا کہ روشنی تیری
نظر سے چھپتی ہے لیکن کبھی نہیں بجھتی
اگرچہ پرتو خورشید سے ہے نور ترا
ہے قرض دام کا جام مئے سرور ترا
بلندیوں میں بھی تیرا کوئی مقام نہیں
نجوم چرخ بریں کا تو ہم خرام نہیں
زمیں کے پہلو میں تو نے مگر جگہ پائی
لٹا کے دولت حسن و متاع رعنائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.