چلے بھی آؤ
وہ منتظر ہیں کسی کی آنکھیں
وہ رات ڈھلنے کو آ گئی ہے
وہ چاند مدھم سا لگ رہا ہے
ستارے بے نور ہو رہے ہیں
سویرا انگڑائی لے رہا ہے
کسی کی باہیں پکارتی ہیں
چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ
وہ تاب ہم میں کہاں ہے باقی
کہ فرقتوں کے عذاب جھیلیں
وہ حوصلے اور وہ ولولے سب
بکھر رہے ہیں بکھر رہے ہیں
تمام احساس مر رہے ہیں
اب اس سے پہلے کہ موت آئے
چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ
وہی غموں کا ہجوم پھر ہے
وہی ہے موسم جدائیوں کا
وہی ہے تیرہ شبی کا منظر
وہی سسکتی سی آرزو ہے
کہ پھر وہ پہلی سی زندگی سے
سہارا باہوں کا پھر سے دے دو
چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ
ہے خشک پتوں سی اپنی حالت
ہوا کے رحم و کرم پہ ہیں ہم
نہ ہم کو راہوں کا کچھ پتہ ہے
نہ منزلوں کی خبر ہے ہم کو
کہاں کہاں ہم لئے پھریں گے
اٹھائے اس زندگی کا لاشہ
چلاؤ نظروں سے تیر ہم پر
ہمیں اجل کی غذا بنا دو
چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.