چلو بازار چلتے ہیں
دلچسپ معلومات
(اسٹریٹ کرائمز کے پس منظر میں ایک نظم)
کسی کی جیب سے نقدی
کسی کے کان کی بالی
کسی کی چوڑیاں
ہاتھوں سے
مہنگا کوئی موبائل
جھلک ٹی ٹی کی دکھلا کر
جو مالا ٹوٹ کر بکھرے
تو موتی بین لیتے تھے
غریبوں کی بھی کل پونجی
ابھی کل تک یہاں ہم
چھین لیتے تھے
مگر اب لوگ بھی اپنے بہت ہشیار بنتے ہیں
شکستہ ہی سہی
پھر بھی ہماری راہ کی
دیوار بنتے ہیں
نہ کانوں میں کوئی بالی پہنتا ہے
نہ ہاتھوں میں
کڑے سونے کے ہوتے ہیں
دلہن کے جو بھی زیور ہیں
وہ مصنوعی
جو موبائل ہیں وہ نقلی
نمائش کے سبھی طور و طریقے
کھوکھلے ہیں
کچھ نہیں اصلی
تو پھر بازار جا کر کیا کریں
جیبیں تو ہیں خالی
چلو کچھ ایسا کرتے ہیں
کسی کے ہاتھ سے تھیلا دواؤں کا
لپک کر چھین لیتے ہیں
دوائیں بھی تو مہنگی ہیں
کہیں پر بیچ دیتے ہیں
کہیں پر بیچ دیتے ہیں
یا پھر گھر کو پلٹتے ہیں
ابھی کچھ روز پہلے ہی
جو ہم نے بالیاں کانوں سے نوچی تھیں
وہ میں نے تحفتاً بخشیں تھیں بیوی کو
کڑے سونے کے اماں کو
تو پھر کچھ ایسا کرتے ہیں
کڑے اماں سے جا کر چھین لاتے ہیں
وہی دو بالیاں سونے کی جو بخشیں تھیں بیوی کو
انہیں پھر نوچ لاتے ہیں
چلو بازار چلتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.