چلو ہم یاد کرتے ہیں
چلو ہم یاد کرتے ہیں سہانی رت کہ جس میں ہم کبھی تتلی پکڑتے تھے
کبھی جگنو کو مٹھی میں شرارت سے چھپاتے تھے
کبھی رنگین برکھا میں
کسی بچے کی صورت ناؤ پانی میں بہاتے تھے
کبھی ہم بند جھولی میں ہزاروں سیپیاں لے کر گھروندوں کو سجاتے تھے
مگر سفاک موجیں جب گھروندے کو بہاتی تھیں
بہت دلگیر ہوتے تھے بہت ناشاد رہتے تھے
ہمیں اب یاد کرنے دو
تمہارے ہاتھ کو تھامے
بڑی لمبی مسافت میں بہت پر لطف رہتے تھے
کبھی ہم چاندنی راتوں میں ننگے پاؤں ساحل پہ کھڑے ہو کر حسیں لمحے چراتے تھے
تمہارے ہاتھ پر پہروں ہم اپنا نام لکھتے تھے
مگر اب تو
ہمیں دن بھر
ذرا بھی سانس لینے کی کہاں فرصت میسر ہے
تمہارے نام کو سوچیں
تمہاری یاد کو کھوجیں
اگر کچھ یاد رکھنا ہے بس اتنا یاد رکھنا ہے
تمہاری یاد کے نیلم سمندر برد کرنے ہیں
اماوس رات سے ہم کو بہت ہی خوف آتا ہے
تو ہم ساحل سے خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہیں
نہ اب ناؤ بہاتے ہیں نہ اب ساون مناتے ہیں
سنو یخ بستہ راتوں میں
کسی آتش کدے کے پاس بیٹھے ہم
ہتھیلی پر بہت ہی غور سے نظریں جماتے ہیں
تو زیر لب بہت زخمی ادا سے مسکراتے ہیں
مگر یہ بات بھی سچ ہے
کہ میرے ہاتھ کی ریکھا پہ تیرا نام ہی کب تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.