غزل صداؤں کا ایک جنگل
ترس رہا ہے
بلند و بالا گھنیرے برگد کی شاخ در شاخ
سنسناہٹ کے زمزموں کو کہ در حقیقت
بلند و بالا گھنیرے برگد کی انفرادی تناوری کو
فنا کی دیمک نگل گئی ہے
غزل جو اردو ادب کے بر صغیر پر تھی
نئے تقاضوں نئے سلیقوں کا اک ہمالہ صفت سراپا
وہ اپنی چوٹی سے منقطع ہے
کہ اب وہ چوٹی نہیں رہی ہے
غزل کی اس آبرو کے بدلے
بس اب تو یادوں کی خلوتوں میں
سلگتی سوچوں میں سانس لیتے
چند اک فسانے
متاع احباب رہ گئے ہیں
وہ چند برسوں کی اک رفاقت
جو رسم و رہ کے
اٹوٹ سنگم میں ڈھل چکی تھی
بس ایک لمحے کی تند کروٹ نے چھین لی ہے
حریم دل
کرب گاہ اظہار بن گئی ہے
لبوں پہ اب مہر خامشی ہے
کسے سنائیں وہ دل کی دھڑکن
جسے جوابوں کا التفات شعور انگیز
بے محابا جھنجھوڑ کر
اس کی فکریاتی عمیق پرتوں میں سوئی سوئی سی
روح احساس کو جگائے
جنوں کو مہمیز غم دکھائے
پرند تخئیل کو اڑائے
خلا کی اقلیم کا مسافر
جہاں وہ اٹھ کر چلا گیا ہے
وہاں خلا کا سوال کیا ہے
خلا تو اب اس کے پیچھے پیچھے ہی رہ گیا ہے
جہاں ہم ایسے فقیر تحلیل ہو کے راہیؔ
وجود بھی اپنا کھو چکے ہیں
بہت مکافات بے وجودی کو رو چکے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.