چرواہے کا جواب
آگ برابر پھینک رہا تھا سورج دھرتی والوں پر
تپتی زمیں پر لو کے بگولے خاک اڑاتے پھرتے تھے
نہر کنارے اجڑے اجڑے پیڑ کھڑے تھے کیکر کے
جن پر دھوپ ہنسا کرتی ہے ویسے ان کے سائے تھے
اک چرواہا بھیڑیں لے کر جن کے نیچے بیٹھا تھا
سر پر میلا صافا تھا اور کلہاڑی تھی ہاتھوں میں
چلتے چلتے چرواہے سے میں نے اتنا پوچھ لیا
اے بھیڑوں کے رکھوالے کیا لوگ یہاں کے دانا ہیں
کیا یہ سچ ہے یاں کا حاکم نیک بہت اور عادل ہے
سر کو جھکا کر دھندلی آنکھوں والا دھیمے سے بولا
بادل کم کم آتے ہیں اور بارش کب سے روٹھی ہے
نہریں بند پڑی ہیں جب سے ساری دھرتی سوکھی ہے
کچھ سالوں سے کیکر پر بھی پھلیاں کم ہی لگتی ہیں
میری بھیڑیں پیاسی بھی ہیں میری بھیڑیں بھوکی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.