چشم تمنا
جسے نیند آئی تھی صدیوں کی بیماریوں کی تھکن سے
جاگ اٹھی ہے شاید
بدن میں نیا دن شگوفے کی مانند ابھرا
شفق زار بن کر
دل کی آغوش میں آ بسا ہے
نظارے میں مسحور رہنے کی خواہش جنم لے رہی ہے
بسا کر اسے اپنی نظروں میں
شاداب آنکھوں میں رہنے کو جی چاہتا ہے
وہی رنگ و بو کی حرارت کی ہلکی لکیریں
تمازت کے جھونکے بدن چھو رہے ہیں
بہار آ گئی یاد کی وادیوں میں
سفر کے ارادوں سے مایوس کشتی
کنارے پہ یوں آ لگی ہے
کہ ٹھہری ہوئی جھیل کی روشنی میں نیا گھر بسا ہے
یہ چشم تمنا کی کشتی بنی ہے نیا آشیانہ
نیلگوں روشنی تیرتی ہے
مگر یہ کھڑی ہے
زمانے محبت کے پھر لوٹ آئے ہیں شاید
وقت کے ٹھہر جانے کی شاید گھڑی ہے
قیامت کڑی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.