میں نے ایک سوکھتے پیڑ پر
نظم لکھنا شروع کی
میرے اندر پیلے پتوں کے ڈھیر لگ گئے
میں نے ہوا پر نظم لکھی
میرے اندر شاخیں پھوٹنے لگیں
پھول میری ہتھیلیوں سے
باہر نکل آئے
میں نے بارش پر نظم لکھی
میری چادر کے پلو بھیگ گئے
جن کو سکھانے کے لئے
میں نے
دھوپ پر نظم لکھی
سورج سوا نیزے پر آ گیا
پیڑ جلنے لگے
اور پرند مرنے لگے
میں نے بادلوں کے لئے ہاتھ اٹھائے
پھر کشتیاں کم پڑ گئیں
لوگ ڈوبنے لگے
میں نے ڈوبنے والوں پر نظم لکھنا چاہی
لاشیں ہی لاشیں میری چاروں جانب تیرنے لگیں
ہر ایک لاش کہنے لگی
پہلے مجھ پر لکھو
پہلے مجھ پر
میں نے اس شور میں
اپنی بھی چیخیں سنیں
پھر میرے اندر
ایک گہرے اور پر اسرار سکوت نے بسیرا کر لیا
اب میں اس سکوت کی میزبانی کرتی ہوں
اسی کے ساتھ باتیں کرتی ہوں
سوتی اور جاگتی ہوں
دیواریں میرے لیے
لباس بنتی رہتی ہیں
کھڑکیاں اور روشن دان میرے وجود کے گھاؤ ہیں
جن پر
ہر آتی ہوئی صبح اور ڈھلتی ہوئی شام
اپنا اپنا مرہم رکھتی ہیں
اور مجھ سے کہتی ہیں ہم پر بھی نظم لکھنا جب یہ گھاؤ بھر جائیں
گلی میں کھیلتے بچے
کبھی کبھی
کھڑکی کے شیشے سے آنکھیں چپکا کر
اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں
انہیں کون یہ سمجھائے
چیزوں کے اندر جھانکنے کی کوشش
شاعر بنا دیتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.