چور دروازہ کھلا رہتا ہے
میرے خواب زخمی ہوئے
تو دنیا کے سارے ضابطے جھوٹے لگے
میں نے زندگی کے لیے بھیک مانگی
مگر آباد لمحوں کی پوجا کے لیے
وقت کبھی میرے لیے نہ رکا
مجھے ویسٹ پن سے اپنائیت محسوس ہوئی
لوگ کاغذوں سے بنے کھلونے تھے
جنہیں ہمیشہ خلاف مرضی ناچنا پڑا
بھیگے ساحلوں کی ہوا میں خون ہی خون تھا
جھیلوں کے آباد کنارے مجھے بنجر کر گئے
پانی پر تیرتا منظر دغاباز نکلا
میں مخالف سمت بہتی کشتیوں میں
بہ یک وقت سوار ہو گیا
بادل برس گئے
تو آسمان پر دھواں رہ گیا
میں نے خود کو دھویں میں اڑایا
اور مصروفیت سے سودا کر لیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.