دائرے سے ٹوٹ کر گر پڑیں گے ابھی
اور ہم اپنے ہونے کی پاداش میں
بوڑھی صدیوں کی ٹوٹی ہوئی قوس پر
ایک تاریک نقطے میں کھو جائیں گے
دائروں کے مقابر میں سو جائیں گے
دائرے خواہشوں کے مقابر سہی
دائرے آرزو کے مینار ہیں
دائرے بے ثباتی کے مرقد نہیں
دائرے گزرے وقتوں کے آثار ہیں
دائروں کی فصیلوں میں لپٹے ہوئے
ان گنت لوگ جیون سے بیزار ہیں
جانے دن کے لہو سے سیہ رات کو
ہاتھ دھونے میں کیسی مسرت ملی
کیسے کیسے جواں مرد تھے جو کبھی
چاندنی کے سفر پر روانہ ہوئے
موسموں کی تمازت کو اوڑھے ہوئے
نارسائی کے آزار میں کھو گئے
کتنے تارے خلاؤں کی دہلیز پر
رات کے دشت ویران میں سو گئے
دائروں کی فصیلوں سے گرتا لہو
شہر کے بے نواؤں کا تاوان ہے
جنگلوں میں بھٹکتی صدا کی طرح
شہر کا ہر صدا کار بے جان ہے
بے گھروں کی طرح بیسوا کی طرح
کوہساروں سے الجھی ہوا کی طرح
شہر کے چوک میں نقش پا کی طرح
دائروں کی فصیلوں سے ڈرتے رہو
زرد پتوں کی صورت ہوا کی طرح