دامن دریدہ میراث
اپنی ماں کے مزار پر
بے نام آوارہ پودوں
آزردہ اشجار
بہمنی تاجداروں کے ابدی مساکن سے ملحق
نوحہ کناں پتھروں کی یہ چھوٹی سی بستی
ابابیلیں جس کی محافظ
دل شکستہ دلوں دل گرفتہ شبوں کے گلو گیر لمحے جس کے ہمراز
تو جہاں تیس بتیس برسوں سے رہتی چلی آ رہی ہے
کیا واقعی اس قدر پر سکوں تو یہاں ہے
میں تری کوکھ کی فصل کا ایک پودا
تیری شفقت کا جھرنا کہاں ہے
تاج کتبہ کا سر پہ اٹھائے ہوئے
تو بھی کم کیا کسی تاجور سے ہے ماں
میرے دامن کو لیکن ذرا دیکھ لے
مجھ سے انفاس کا لے حساب
زندگی کی لڑائی میں نصرت ملی کن مقامات پر
اور کہاں میں نے پائی شکست
کس نفس ظلمتوں کے پڑاؤ ملے
کس نفس چاہتوں کو ندامت ملی
کس نفس خواہشوں کے جنازے اٹھے
کس نفس دل جلا
کس نفس میرے جذبوں کی میراث گم ہو گئی
میرے احساس کی ایک اک پنکھڑی
کس نفس بک گئی
نیم شب کی خموشی کے جنگل میں میری نوا کے پرند
آج پہلی دفعہ
تیرے مسکن کی بوجھل فضاؤں میں مضروب اڑتے ہیں
ان کا درماں سماعت تری ہو تو ہو
میں تو دامن دریدہ تہی دست ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.