دعوت عمل
تو سمجھتا ہے جسے منزل ایثار و عمل
وہ ابھی تشنۂ تکمیل سفر ہے اے دوست
جس پہ چلتے ہوئے اک عمر سفر گزری ہے
سامنے پھر بھی وہی راہ گزر ہے اے دوست
نور کیا نور کا پرتو بھی نہیں ہے اس میں
شب تاریک بعنوان سحر ہے اے دوست
لاکھ چہروں پہ نمایاں ہوں مسرت کے نقوش
زندگی غم کدۂ قلب و نظر ہے اے دوست
ہو وہاں قدر جواہر کا کسے فکر و خیال
سنگریزوں کا جہاں نام گہر ہے اے دوست
چار سو چاک ہے آدم کی قبائے عصمت
ہر بشر دشمن تقدیس بشر ہے اے دوست
کوئی صورت نہیں آرام نشیمن کی نصیب
کامراں سلسلۂ برق و شرر ہے اے دوست
نسل انساں کو ملیں جس سے نشانات عروج
ان مقامات کی اب کس کو خبر ہے اے دوست
کاغذی پھولوں میں خوشبو کا یقیں ہے تجھ کو
اپنی پستی کا کچھ احساس نہیں ہے تجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.