دعوت ناگوار
مجھ کو دولت کی کھنک نہ سنا اے دوست
میرے کانوں کو اس آواز سے نفرت ہے
رہ رہ کے کھٹکتی ہے آنکھوں میں میری
یہ جو تیری نمائش مال و حشمت ہے
ہے خوب تیری خاطر داری اور تواضع
مئے گلفام کے جام چھلکتے ہیں ہر سو
عطر آگیں ہے سارا ماحول مگر دوست
آئے نہ کہیں سے بھی کچھ اخلاص کی بو
جام اٹھاتا ہوں تو کانپ اٹھتے ہیں ہاتھ
ہو کوئی لہو سے لبریز پیالہ جیسے
لذت آمیز کباب اتریں نہ حلق سے
بھوکے منہ سے چھین لیا ہو نوالہ جیسے
یہ معزز مہماں یہ مصنوعی مسکانیں
ہر مدعو سے ہے تجھے کچھ مطلب دوست
یہ مہماں داری تو محض اک ذریعہ ہے
کام روائی ہے تیرا مقصد اے دوست
یہ شفاف بلوری پیمانے اور کنٹر
میری نظروں میں ان کی قیمت کچھ بھی نہیں
مجھ کو راس آئے مٹی کا پیالہ دوست
میرے لیے جام جم کی عظمت کچھ بھی نہیں
میرا دم گھٹتا ہے اس بزم طرب میں
مجھ کو جانے دے تو تکرار نہ کر اے دوست
مصلحت آمیز مدارات مجھے راس نہیں
میری شرکت پہ اصرار نہ کر اے دوست
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.