دفتر کہانی
روز ہی میرے جیسے ہزاروں
مشقت بھری آگ پی کے یہی سوچتے ہیں
کہ اہداف کا یہ پرندہ کبھی ہاتھ آیا نہیں
دوسروں سے کہیں تیز دوڑے ہیں لیکن کبھی ریفری نے
ہمارے لیے جیت کا شادیانہ بجایا نہیں
کس لیے دفتروں میں ہماری زمیں پر گل مہربانی
کھلے ہی نہیں
یعنی دربار میں ہر کوئی تند خوئی سے دیکھے ہمیں
اب تو سرکس کے یہ بوزنے بھی ہمیں کوئی کرتب سکھانے کو تیار ہیں
ان کو غیبت سے مردار کھانے کی عادت پرانی سہی
چاپلوسی زمانے کی عادت سہی
وہ نہیں جانتے کہ اگر کھیت تر پہ آئیں تو بے موسمی گھاس اگنے لگے
وہ نہیں جانتے کہ خدا کی زمیں دیکھ کر تو بدن سے اترتے ہیں میرے
یہ پیڑاں، یہ اتھرو یہ ھانوا تے ھاڑے
انہیں تو زباں سے کسی دوسرے کے رگ و پے میں بس اپنا بش گھولنا ہے
کسی دوسرے کی صداقت پہ تالا لگا کے
خود اپنے لیے جھوٹ کا ایک ادنیٰ جہاں کھولنا ہے
پرانی کہاوت میں کارن تھے چالاک لومڑی جنگل کے شیروں کی بربادیوں کے
مگر دفتری داستاں یہ الگ ہے کہ
مردم شناسی کے ماہر ہمیں اپنی سرگوشیوں میں تو باغی قبیلوں کے سگ مانتے ہیں
مگر وسعتوں کے پرندے ہمیں اپنے تخئیل کے بال و پر مانتے ہیں
کہ بارہ مہینوں کی یہ جنگ تو مسخرے جیت ہی جائیں گے
اور ہم بھی نئی آگ پینے کو جگرا نیا لائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.