درخت زرد
دلچسپ معلومات
جون ایلیا نے ایک بار کہیں اپنے اکلوتے بیٹے زریون کو دیکھا جو اب ایک نوعمر لڑکا تھا ۔ جون اس کو بالکل ہی نہیں پہچان سکے ۔ اور بیٹے نے ان کو پہچان لینے کے باوجود ان کی جانب کسی خصوصی التفات کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ جون حد درجہ دل شکستہ و ملول ہوئے، اور اسی رات انہوں نے آنسوؤں میں ڈوب کر اپنی نظم ’’ درختِ زرد ‘‘ لکھی ۔ جون نے یہ نظم لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی اور کسی کو نہیں سنائی تھی ۔ پھر انہوں نے فون کر کے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ وہ مجھے ایک نظم سنانا چاہتے ہیں ۔ کوٹھی کے پچھواڑے اس اجاڑ اور ٹوٹے پھوٹے کمرے میں ، جہاں بہت سارے کاٹھ کباڑ کے ساتھ جون کا پلنگ بھی پڑا ہوا تھا ، جون نے مجھے پہلے تو اس نظم کا پس منظر سنایا اور پھر یہ نظم سنانی شروع کی ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دھاروں دھارروتے جاتے تھے اور نظم پڑھتے جاتے تھے ۔ اس طویل نظم میں جتنے مصرعے تھے ، ان سے کہیں زیادہ آنسو جون نے اس نظم کو سنانے میں بہائے ہوں گے ۔ جون کی صحت اس زمانے میں بہت خراب ہوگئی تھی ۔ وہ باتیں کرتے کرتے ہانپنے لگتے تھے اور ذرا سی دور چلنے سے ان کا سانس پھولنے لگتا تھا ۔ وہ شدید اعصابی کمزوری کا شکار ہوتے جارہے تھے ۔ ایک دن اخبار میں میں نے خبر پڑھی کہ گزشتہ شب جون کا اسپتال میں انتقال ہوگیا ۔ جون کی ہزار ہا خاردار پیچ وخم سے گزرتی ہوئی داستان حیات بالآخر اپنے انجام کو پہنچی ۔ جون زندگی بھر اپنے آپ سے لڑتے رہے اور اپنے آپ کو مٹاتے رہے ۔ شاید وہ یہ فیصلہ کبھی نہ کر سکے کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔ اور اسی گومگو کی حالت میں وہ دنیا سے سدھار گئے ۔ میں انہیں چشم تصور سے اپنی نہایت منفرد اور کمال نظم د رخت زرد میں اپنے بیٹے زریون سے مکالمہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ انورا حسن صدیقی کی کتاب’’ دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے ماخوذ
نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگی
وہ کن خوابوں سے جانے آشنا نا آشنا ہوگی
تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے
تمہیں کیسے گماں ہوں گے تمہیں کیسے گلے ہوں گے
تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو
تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو
نہ جانے کون دوشیزہ تمہاری زندگی ہوگی
نہ جانے اس کی کیا بایستگی شائستگی ہوگی
اسے تم فون کرتے اور خط لکھتے رہے ہو گے
نہ جانے تم نے کتنی کم غلط اردو لکھی ہوگی
یہ خط لکھنا تو دقیانوس کی پیڑھی کا قصہ ہے
یہ صنف نثر ہم نابالغوں کے فن کا حصہ ہے
وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میں
گڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اس کے گالوں میں
گماں یہ ہے تمہاری بھی رسائی نارسائی ہو
وہ آئی ہو تمہارے پاس لیکن آ نہ پائی ہو
وہ شاید مائدے کی گند بریانی نہ کھاتی ہو
وہ نان بے خمیر میدہ کم تر ہی چباتی ہو
وہ دوشیزہ بھی شاید داستانوں کی ہو دل دادہ
اسے معلوم ہوگا زالؔ تھا سہرابؔ کا دادا
تہمتن یعنی رستمؔ تھا گرامی سامؔ کا وارث
گرامی سامؔ تھا صلب نر مانیؔ کا خوش زادہ
(یہ میری ایک خواہش ہے جو مشکل ہے)
وہ نجمؔ آفندی مرحوم کو تو جانتی ہوگی
وہ نوحوں کے ادب کا طرز تو پہچانتی ہوگی
اسے کد ہوگی شاید ان سبھی سے جو لپاڑی ہوں
نہ ہوں گے خواب اس کا جو گویے اور کھلاڑی ہوں
ہدف ہوں گے تمہارا کون تم کس کے ہدف ہوگے
نہ جانے وقت کی پیکار میں تم کس طرف ہوگے
ہے رن یہ زندگی اک رن جو برپا لمحہ لمحہ ہے
ہمیں اس رن میں کچھ بھی ہو کسی جانب تو ہونا ہے
سو ہم بھی اس نفس تک ہیں سپاہی ایک لشکر کے
ہزاروں سال سے جیتے چلے آئے ہیں مر مر کے
شہود اک فن ہے اور میری عداوت بے فنوں سے ہے
مری پیکار ازل سے
یہ خسروؔ میرؔ غالبؔ کا خرابہ بیچتا کیا ہے
ہمارا غالبؔ اعظم تھا چور آقائے بیدلؔ کا
سو رزق فخر اب ہم کھا رہے ہیں میرؔ بسمل کا
سدھارت بھی تھا شرمندہ کہ دو آبے کا باسی تھا
تمہیں معلوم ہے اردو جو ہے پالی سے نکلی ہے
وہ گویا اس کی ہی اک پر نمو ڈالی سے نکلی ہے
یہ کڑواہٹ کی باتیں ہیں مٹھاس ان کی نہ پوچھو تم
نم لب کو ترستی ہیں سو پیاس ان کی نہ پوچھو تم
یہ اک دو جرعوں کی اک چہل ہے اور چہل میں کیا ہے
عوام الناس سے پوچھو بھلا الکحل میں کیا ہے
یہ طعن و طنز کی ہرزہ سرائی ہو نہیں سکتی
کہ میری جان میرے دل سے رشتہ کھو نہیں سکتی
نشہ چڑھنے لگا ہے اور چڑھنا چاہئے بھی تھا
عبث کا نرخ تو اس وقت بڑھنا چاہئے بھی تھا
عجب بے ماجرا بے طور بیزارانہ حالت ہے
وجود اک وہم ہے اور وہم ہی شاید حقیقت ہے
غرض جو حال تھا وہ نفس کے بازار ہی کا تھا
ہے ''ز'' بازار میں تو درمیاں زریونؔ میں اول
تو یہ عبرافنیقی کھیلتے حرفوں سے تھے ہر پل
تو یہ زریونؔ جو ہے کیا یہ افلاطون ہے کوئی
اماں زریونؔ ہے زریونؔ وہ معجون کیوں ہوتا
ہیں معجونیں مفید ''ارواح'' کو معجون یوں ہوتا
سنو تفریق کیسے ہو بھلا اشخاص و اشیا میں
بہت جنجال ہیں پر ہو یہاں تو ''یا'' میں اور ''یا'' میں
تمہاری جو حماسہ ہے بھلا اس کا تو کیا کہنا
ہے شاید مجھ کو ساری عمر اس کے سحر میں رہنا
مگر میرے غریب اجداد نے بھی کچھ کیا ہوگا
بہت ٹچا سہی ان کا بھی کوئی ماجرا ہوگا
یہ ہم جو ہیں ہماری بھی تو ہوگی کوئی نوٹنکی
ہمارا خون بھی سچ مچ کا صحنے پر بہا ہوگا
ہے آخر زندگی خون از بن ناخن بر آور تر
قیامت سانحہ مطلب قیامت فاجعہ پرور
نہیں ہو تم مرے اور میرا فردا بھی نہیں میرا
سو میں نے ساحت دیروز میں ڈالا ہے اب ڈیرا
مرے دیروز میں زہر ہلاہل تیغ قاتل ہے
مرے گھر کا وہی سرنام تر ہے جو بھی بسمل ہے
گزشت وقت سے پیمان ہے اپنا عجب سا کچھ
سو اک معمول ہے عمران کے گھر کا عجب سا کچھ
حسنؔ نامی ہمارے گھر میں اک سقراطؔ گزرا ہے
وہ اپنی نفی سے اثبات تک معشر کے پہنچا ہے
کہ خون رایگاں کے امر میں پڑنا نہیں ہم کو
وہ سود حال سے یکسر زیاں کارانہ گزرا ہے
طلب تھی خون کی قے کی اسے اور بے نہایت تھی
سو فوراً بنت اشعت کا پلایا پی گیا ہوگا
وہ اک لمحے کے اندر سرمدیت جی گیا ہوگا
تمہاری ارجمند امی کو میں بھولا بہت دن میں
میں ان کی رنگ کی تسکین سے نمٹا بہت دن میں
وہی تو ہیں جنہوں نے مجھ کو پیہم رنگ تھکوایا
وہ کس رگ کا لہو ہے جو میاں میں نے نہیں تھوکا
لہو اور تھوکنا اس کا ہے کاروبار بھی میرا
یہی ہے ساکھ بھی میری یہی معیار بھی میرا
میں وہ ہوں جس نے اپنے خون سے موسم کھلائے ہیں
نجانے وقت کے کتنے ہی عالم آزمائے ہیں
میں اک تاریخ ہوں اور میری جانے کتنی فصلیں ہیں
مری کتنی ہی فرعیں ہیں مری کتنی ہی اصلیں ہیں
حوادث ماجرا ہی ہم رہے ہیں اک زمانے سے
شداید سانحہ ہی ہم رہے ہیں اک زمانے سے
ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے ہم اس میں قائم ہیں
ہماری جنگ خیر و شر کے بستر کی ہے زائیدہ
یہ چرخ جبر کے دوار ممکن کی ہے گرویدہ
لڑائی کے لیے میدان اور لشکر نہیں لازم
سنان و گرز و شمشیر و تبر خنجر نہیں لازم
بس اک احساس لازم ہے کہ ہم بعدین ہیں دنوں
کہ نفی عین عین و سر بہ سر ضدین ہیں دونوں
Luis Urbina نے میری عجب کچھ غم گساری کی
بصد دل دانشی گزران اپنی مجھ پہ طاری کی
بہت اس نے پلائی اور پینے ہی نہ دی مجھ کو
پلک تک اس نے مرنے کے لیے جینے نہ دی مجھ کو
''میں تیرے عشق میں رنجیدہ ہوں ہاں اب بھی کچھ کچھ ہوں
مجھے تیری خیانت نے غضب مجروح کر ڈالا
مگر طیش شدیدانہ کے بعد آخر زمانے میں
رضا کی جاودانہ جبر کی نوبت بھی آ پہنچی''
محبت ایک پسپائی ہے پر احوال حالت کی
محبت اپنی یک طوری میں دشمن ہے محبت کی
سخن مال محبت کی دکان آرائی کرتا ہے
سخن سو طرح سے اک رمز کی رسوائی کرتا ہے
سخن بکواس ہے بکواس جو ٹھہرا ہے فن میرا
وہ ہے تعبیر کا افلاس جو ٹھہرا ہے فن میرا
سخن یعنی لبوں کا فن سخن ور یعنی اک پر فن
سخن ور ایزد اچھا تھا کہ آدم یا پھر اہریمن
مزید آں کہ سخن میں وقت ہے وقت اب سے اب یعنی
کچھ ایسا ہے یہ میں جو ہوں یہ میں اپنے سوا ہوں ''میں''
سو اپنے آپ میں شاید نہیں واقع ہوا ہوں میں
جو ہونے میں ہو وہ ہر لمحہ اپنا غیر ہوتا ہے
کہ ہونے کو تو ہونے سے عجب کچھ بیر ہوتا ہے
یوں ہی بس یوں ہی زینوؔ نے یکایک خودکشی کر لی
عجب حس ظرافت کے تھے مالک یہ رواقی بھی
بدہ یارا ازاں بادہ کہ دہقاں پرورد آں را
بہ سوزد ہر متاع انتماے دودماناں را
بہ سوزد ایں زمین اعتبار و آسماناں را
بہ سوزد جان و دل راہم بیاساید دل و جاں را
دل و جاں اور آسائش یہ اک کونی تمسخر ہے
حمق کی عبقریت ہے سفاہت کا تفکر ہے
حمق کی عبقریت اور سفاہت کے تفکر نے
ہمیں تضیع مہلت کے لیے اکوان بخشے ہیں
اور افلاطون اقدس نے ہمیں اعیان بخشے ہیں
سنو زریونؔ تم تو عین اعیان حقیقت ہو
نظر سے دور منظر کا سر و سامان ثروت ہو
ہماری عمر کا قصہ حساب اندوز آنی ہے
زمانی زد میں ظن کی اک گمان لازمانی ہے
گماں یہ ہے کہ باقی ہے بقا ہر آن فانی ہے
کہانی سننے والے جو بھی ہیں وہ خود کہانی ہیں
کہانی کہنے والا اک کہانی کی کہانی ہے
پیا پے یہ گدازش یہ گماں اور یہ گلے کیسے
صلہ سوزی تو میرا فن ہے پھر اس کے صلے کیسے
تو میں کیا کہہ رہا تھا یعنی کیا کچھ سہہ رہا تھا میں
اماں ہاں میز پر یا میز پر سے بہہ رہا تھا میں
رکو میں بے سر و پا اپنے سر بھاگ نکلا ہوں
الا یا ایھا الابجد ذرا یعنی ذرا ٹھہرو
There is an absurd I ان absurdity شاید
کہیں اپنے سوا یعنی کہیں اپنے سوا ٹھہرو
تم اس absurdity میں اک ردیف اک قافیہ ٹھہرو
ردیف و قافیہ کیا ہیں شکست ناروا کیا ہے
شکست ناروا نے مجھ کو پارہ پارہ کر ڈالا
انا کو میری بے اندازہ تر بے چارہ کر ڈالا
میں اپنے آپ میں ہارا ہوں اور خوارانہ ہارا ہوں
جگر چاکانہ ہارا ہوں دل افگارانہ ہارا ہوں
جسے فن کہتے آئے ہیں وہ ہے خون جگر اپنا
مگر خون جگر کیا ہے وہ ہے قتال تر اپنا
کوئی خون جگر کا فن ذرا تعبیر میں لائے
مگر میں تو کہوں وہ پہلے میرے سامنے آئے
وجود و شعر یہ دونوں define ہو نہیں سکتے
کبھی مفہوم میں ہرگز یہ کائن ہو نہیں سکتے
حساب حرف میں آتا رہا ہے بس حسب ان کا
نہیں معلوم ایزد ایزداں کو بھی نسب ان کا
ہے ازد ایزداں اک رمز جو بے رمز نسبت ہے
میاں اک حال ہے اک حال جو بے حال حالت ہے
نہ جانے جبر ہے حالت کہ حالت جبر ہے یعنی
کسی بھی بات کے معنی جو ہیں ان کے ہیں کیا معنی
وجود اک جبر ہے میرا عدم اوقات ہے میری
جو میری ذات ہرگز بھی نہیں وہ ذات ہے میری
میں روز و شب نگارش کوش خود اپنے عدم کا ہوں
میں اپنا آدمی ہرگز نہیں لوح و قلم کا ہوں
ہیں کڑواہٹ میں یہ بھیگے ہوئے لمحے عجب سے کچھ
سراسر بے حسابانا سراسر بے سبب سے کچھ
سرابوں نے سرابوں پر بہت بادل ہیں برسائے
شرابوں نے معابد کے تموز و بعل نہلائے
(یقیناً قافیہ ہے یاوہ فرمائی کا سر چشمہ
''ہیں نہلائے'' ''ہیں برسائے'')
نہ جانے عاربہ کیوں آئے کیوں مستعربہ آئے
مضر کے لوگ تو چھانے ہی والے تھے سو وہ چھائے
مرے جد ہاشم عالی گئے غزہ میں دفنائے
میں ناقے کو پلاؤں گا مجھے واں تک وہ لے جائے
لدوا للموت وابنو للحزاب سن خراباتی
وہ مرد عوص کہتا ہے حقیقت ہے خرافاتی
یہ ظالم تیسرا پیگ اک اقانیمی بدایت ہے
الوہی ہرزہ فرمائی کا سر طور لکنت ہے
بھلا حورب کی جھاڑی کا وہ رمز آتشیں کیا تھا
مگر حورب کی جھاڑی کیا یہ کس سے کس کی نسبت ہے
یہ نسبت کے بہت سے قافیے ہیں ہے گلہ اس کا
مگر تجھ کو تو یارا! قافیوں کی بے طرح لت ہے
گماں یہ ہے کہ شاید بحر سے خارج نہیں ہوں میں
ذرا بھی حال کے آہنگ میں حارج نہیں ہوں
تنا تن تن تنا تن تن تنا تن تن تنا تن تن
تنا تن تن نہیں محنت کشوں کا تن نہ پیراہن
نہ پیراہن نہ پوری آدھی روٹی اب رہا سالن
یہ سالے کچھ بھی کھانے کو نہ پائیں گالیاں کھائیں
ہے ان کی بے حسی میں تو مقدس تر حرامی پن
مگر آہنگ میرا کھو گیا شاید کہاں جانے
کوئی موج ۔۔۔کوئی موج شمال جاوداں جانے
شمال جاوداں کے اپنے ہی قصے تھے جو گزرے
وہ ہو گزرے تو پھر خود میں نے بھی جانا وہ ہو گزرے
شمال جاوداں اپنا شمال جاودان جاں
ہے اب بھی اپنی پونجی اک ملال جاودان جاں
نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگی
یہی ہے دل کا مضمون اب تمہاری عمر کیا ہوگی
ہمارے درمیاں اب ایک بے جا تر زمانہ ہے
لب تشنہ پہ اک زہر حقیقت کا فسانہ ہے
عجب فرصت میسر آئی ہے ''دل جان رشتے'' کو
نہ دل کو آزمانا ہے نہ جاں کو آزمانا ہے
کلید کشت زار خواب بھی گم ہو گئی آخر
کہاں اب جادۂ خرم میں سرسبزانہ جانا ہے
کہوں تو کیا کہوں میرا یہ زخم جاودانہ ہے
وہی دل کی حقیقت جو کبھی جاں تھی وہ اب آخر
فسانہ در فسانہ در فسانہ در فسانہ ہے
ہمارا باہمی رشتہ جو حاصل تر تھا رشتوں کا
ہمارا طور بے زاری بھی کتنا والہانہ ہے
کسی کا نام لکھا ہے مری ساری بیاضوں پر
میں ہمت کر رہا ہوں یعنی اب اس کو مٹانا ہے
یہ اک شام عذاب بے سروکارانہ حالت ہے
ہوئے جانے کی حالت میں ہوں بس فرصت ہی فرصت ہے
نہیں معلوم تم اس وقت کس معلوم میں ہو گے
نہ جانے کون سے معنی میں کس مفہوم میں ہوگے
میں تھا مفہوم نا مفہوم میں گم ہو چکا ہوں میں
میں تھا معلوم نامعلوم میں گم ہو چکا ہوں میں
نہیں معلوم زریونؔ اب تمہاری عمر کیا ہوگی
مرے خود سے گزرنے کے زمانے سے سوا ہوگی
مرے قامت سے اب قامت تمہارا کچھ فزوں ہوگا
مرا فردا مرے دیروز سے بھی خوش نموں ہوگا
حساب ماہ و سال اب تک کبھی رکھا نہیں میں نے
کسی بھی فصل کا اب تک مزہ چکھا نہیں میں نے
میں اپنے آپ میں کب رہ سکا کب رہ سکا آخر
کبھی اک پل کو بھی اپنے لیے سوچا نہیں میں نے
حساب ماہ و سال و روز و شب وہ سوختہ بودش
مسلسل جاں کنی کے حال میں رکھتا بھی تو کیسے
جسے یہ بھی نہ ہو معلوم وہ ہے بھی تو کیوں کر ہے
کوئی حالت دل پامال میں رکھتا بھی تو کیسے
کوئی نسبت بھی اب تو ذات سے باہر نہیں میری
کوئی بستر نہیں میرا کوئی چادر نہیں میری
بہ حال ناشتا صد زخم ہا و خون ہا خوردم
بہ ہر دم شوکراں آمیختہ معجون ہا خوردم
تمہیں اس بات سے مطلب ہی کیا اور آخرش کیوں ہو
کسی سے بھی نہیں مجھ کو گلہ اور آخرش کیوں ہو
جو ہے اک ننگ ہستی اس کو تم کیا جان بھی لو گے
اگر تم دیکھ لو مجھ کو تو کیا پہچان بھی لو گے
تمہیں مجھ سے جو نفرت ہے وہی تو میری راحت ہے
مری جو بھی اذیت ہے وہی تو میری لذت ہے
کہ آخر اس جہاں کا ایک نظام کار ہے آخر
جزا کا اور سزا کا کوئی تو ہنجار ہے آخر
میں خود میں جھینکتا ہوں اور سینے میں بھڑکتا ہوں
مرے اندر جو ہے اک شخص میں اس میں پھڑکتا ہوں
ہے میری زندگی اب روز و شب یک مجلس غم ہا
عزا ہا مرثیہ ہا گریہ ہا آشوب ماتم ہا
تمہاری تربیت میں میرا حصہ کم رہا کم تر
زباں میری تمہارے واسطے شاید کہ مشکل ہو
زباں اپنی زباں میں تم کو آخر کب سکھا پایا
عذاب صد شماتت آخرش مجھ پر ہی نازل ہو
زباں کا کام یوں بھی بات سمجھانا نہیں ہوتا
سمجھ میں کوئی بھی مطلب کبھی آنا نہیں ہوتا
کبھی خود تک بھی مطلب کوئی پہنچانا نہیں ہوتا
گمانوں کے گماں کی دم بہ دم آشوب کاری ہے
بھلا کیا اعتباری اور کیا نا اعتباری ہے
گماں یہ ہے بھلا میں جز گماں کیا تھا گمانوں میں
سخن ہی کیا فسانوں کا دھرا کیا ہے فسانوں میں
مرا کیا تذکرہ اور واقعی کیا تذکرہ میرا
میں اک افسوس تھا افسوس ہوں گزرے زمانوں میں
ہے شاید دل مرا بے زخم اور لب پر نہیں چھالے
مرے سینے میں کب سوزندہ تر داغوں کے ہیں تھالے
مگر دوزخ پگھل جائے جو میرے سانس اپنا لے
تم اپنی مام کے بے حد مرادی منتوں والے
مرے کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں بالے
مگر پہلے کبھی تم سے مرا کچھ سلسلہ تو تھا
گماں میں میرے شاید اک کوئی غنچہ کھلا تو تھا
وہ میری جاودانہ بے دوئی کا اک صلہ تو تھا
سو اس کو ایک ابو نام کا گھوڑا ملا تو تھا
سایۂ دامان رحمت چاہئے تھوڑا مجھے
میں نہ چھوڑوں یا نبی تم نے اگر چھوڑا مجھے
عید کے دن مصطفی سے یوں لگے کہنے حسینؔ
سبز جوڑا دو حسنؔ کو سرخ دو جوڑا مجھے
''ادب ادب کتے ترے کان کاٹوں
زریونؔ کے بیاہ کے نان باٹوں''
تاروں بھرے جگر جگر خوان باٹوں
''آ جا ری نندیا تو آ کیوں نہ جا
زریونؔ کو آ کے سلا کیوں نہ جا''
تمہارے بیاہ میں شجرہ پڑھا جانا تھا نوشہ واسطی دولہا
''چوکی آنگن میں بچھی واسطی دولہا کے لیے''
مکے مدینے کے پاک مصلے پیمبر گھر نواسے
شاہ مرداں امیرالمومنین حضرت علیؔ کے پوتے
حضرت امام حسنؔ حضرت امام حسینؔ کے پوتے
حضرت امام علی نقیؔ کے پوتے
سید جعفرؔ ثانی کے پوتے
سید ابو الفرح صیدوای الواسطی کے پوتے
میراں سید علیؔ بزرگ کے پوتے
سید حسینؔ شرف الدین شاہ ولایت کے پوتے
قاضی سید امیرؔ علی کے پوتے
دیوان سید حامدؔ کے پوتے
علامہ سید شفیقؔ حسن ایلیا کے پوتے
سید جونؔ ایلیا حسنی الحسینی سپوت جاہ''
مگر ناظر ہمارا سوختہ صلب آخری نساب اب مرنے ہی والا ہے
بس اک پل ہف صدی کا فیصلہ کرنے ہی والا ہے
سنو زریونؔ بس تم ہی سنو یعنی فقط تم ہی
وہی راحت میں ہے جو عام سے ہونے کو اپنا لے
کبھی کوئی بھی پر ہو کوئی بہمنؔ یار یا زینوؔ
تمہیں بہکا نہ پائے اور بیرونی نہ کر ڈالے
میں ساری زندگی کے دکھ بھگت کر تم سے کہتا ہوں
بہت دکھ دے گی تم میں فکر اور فن کی نمو مجھ کو
تمہارے واسطے بے حد سہولت چاہتا ہوں میں
دوام جہل و حال استراحت چاہتا ہوں میں
نہ دیکھو کاش تم وہ خواب جو دیکھا کیا ہوں میں
وہ سارے خواب تھے قصاب جو دیکھا کیا ہوں میں
خراش دل سے تم بے رشتہ بے مقدور ہی ٹھہرو
مرے جحیمیم ذات ذات سے تم دور ہی ٹھہرو
کوئی زریونؔ کوئی بھی کلرک اور کوئی کارندہ
کوئی بھی بینک کا افسر سینٹر کوئی پایندہ
ہر اک حیوان سرکاری کو ٹٹو جانتا ہوں میں
سو ظاہر ہے اسے شے سے زیادہ مانتا ہوں میں
تمہیں ہو صبح دم توفیق بس اخبار پڑھنے کی
تمہیں اے کاش بیماری نہ ہو دیوار پڑھنے کی
عجب ہے سارترؔ اور رسلؔ بھی اخبار پڑھتے تھے
وہ معلومات کے میدان کے شوقین بوڑھے تھے
نہیں معلوم مجھ کو عام شہری کیسے ہوتے ہیں
وہ کیسے اپنا بنجر نام بنجر پن میں بوتے ہیں
میں ''ار'' سے آج تک اک عام شہری ہو نہیں پایا
اسی باعث میں ہوں انبوہ کی لذت سے بے مایہ
مگر تم اک دو پایہ راست قامت ہو کے دکھلانا
سنو راے دہندہ بن ہوئے تم باز مت آنا
فقط زریونؔ ہو تم یعنی اپنا سابقہ چھوڑو
فقط زریونؔ ہو تم یعنی اپنا لاحقہ چھوڑو
مگر میں کون جو چاہوں تمہارے باب میں کچھ بھی
بھلا کیوں ہو مرے احساس کے اسباب میں کچھ بھی
تمہارا باپ یعنی میں عبث میں اک عبث تر میں
مگر میں یعنی جانے کون اچھا میں سراسر میں
میں کاسہ باز و کینہ ساز و کاسہ تن ہوں کتا ہوں
میں اک ننگین بودش ہوں پہ تم تو سر منعم ہو
تمہارا باپ روح القدس تھا تم ابن مریم ہو
یہ قلقل تیسرا پیگ اب تو چوتھا ہو گماں یہ ہے
گماں کا مجھ سے کوئی خاص رشتہ ہو گماں یہ ہے
گماں یہ ہے کہ میں جو جا رہا تھا آ رہا ہوں میں
مگر میں آ رہا کب ہوں پیاپے جا رہا ہوں میں
یہ چوتھا پیگ ہے اوں ہوں ذلالت کی گئی مجھ سے
ذلالت کی گئی مجھ سے خیانت کی گئی مجھ سے
جذامی ہو گئی وضاحؔ کی محبوب واویلا
مگر اس کا گلہ کیا جب نہیں آیا کوئی ایلا
سنو میری کہانی پر میاں میری کہانی کیا
میں یکسر رایگانی ہوں حساب رایگانی کیا
بہت کچھ تھا کبھی شاید پر اب کچھ بھی نہیں ہوں میں
نہ اپنا ہم نفس ہوں میں نہ اپنا ہم نشیں ہوں میں
کبھی کی بات ہے فریاد میرا وہ کبھی یعنی
نہیں اس کا کوئی مطلب نہیں اس کے کوئی معنی
میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
میں بے ہنگام لڑکا تھا میں صد ہنگام لڑکا تھا
مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں
میں حشر آغاز لڑکا تھا میں حشر انجام لڑکا تھا
مرے ہندو مسلماں سب مجھے سر پر بٹھاتے تھے
انہی کے فیض سے معنی مجھے معنی سکھاتے تھے
سخن بہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
وہ کچھ کہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
میں اشراف کمینہ کار کو ٹھوکر پہ رکھتا تھا
سو میں محنت کشوں کی جوتیاں منبر پہ رکھتا تھا
میں شاید اب نہیں ہوں وہ مگر اب بھی وہی ہوں میں
غضب ہنگامہ پرور خیرہ سر اب بھی وہی ہوں میں
مگر میرا تھا اک طور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا
مگر میرا تھا اک دور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا
میں اپنے شہر علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہن
مرے تلمیذ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سن
مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا
وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پر حالی سکھاتا تھا
وہ ہیئت داں وہ عالم ناف شب میں چھت پہ جاتا تھا
رصد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا نبھاتا تھا
اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرص دولت تھی
بڑے سے قطر کی اک دوربین اس کی ضرورت تھی
مری ماں کی تمناؤں کا قاتل تھا وہ قلامہ
مری ماں میری محبوبہ قیامت کی حسینہ تھی
ستم یہ ہے یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہامہ
تھا بے حد اشتعال انگیز بد قسمت او علامہ
خلف اس کے خذف اور بے نہایت نا خلف نکلے
ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شرف نکلے
میں اس عالم ترین دہر کی فکرت کا منکر تھا
میں فسطائی تھا جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا
پر اب میری یہ شہرت ہے کہ میں بس اک شرابی ہوں
میں اپنے دودمان علم کی خانہ خرابی ہوں
سگان خوک زاد برزن و بازار بےمغزی
مری جانب اب اپنے تھوبڑے شاہانہ کرتے ہیں
زنا زادے مری عزت بھی گستاخانہ کرتے ہیں
کمینے شرم بھی اب مجھ سے بے شرمانہ کرتے تھے
مجھے اس شام ہے اپنے لبوں پر اک سخن لانا
علیؔ درویش تھا تم اس کو اپنا جد نہ بتلانا
وہ سبطین محمد، جن کو جانے کیوں بہت ارفع
تم ان کی دور کی نسبت سے بھی یکسر مکر جانا
کہ اس نسبت سے زہر و زخم کو سہنا ضروری ہے
عجب غیرت سے غلطیدہ بخوں رہنا ضروری ہے
وہ شجرہ جو کنانہ فہر غالب کعب مرہ سے
قصی و ہاشم و شیبہ ابو طالب تک آتا تھا
وہ اک اندوہ تھا تاریخ کا اندوہ سوزندہ
وہ ناموں کا درخت زرد تھا اور اس کی شاخوں کو
کسی تنور کے ہیزم کی خاکستر ہی بننا تھا
اسے شعلہ زدہ بودش کا اک بستر ہی بننا تھا
ہمارا فخر تھا فقر اور دانش اپنی پونجی تھی
نسب ناموں کے ہم نے کتنے ہی پرچم لپیٹے ہیں
مرے ہم شہر زریونؔ اک فسوں ہے نسل، ہم دونوں
فقط آدم کے بیٹے ہیں فقط آدم کے بیٹے ہیں
میں جب اوسان اپنے کھونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں
میں تم کو یاد کر کے رونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوں
ہمیشہ میں خدا حافظ ہمیشہ میں خدا حافظ
خدا حافظ
خدا حافظ
- کتاب : yani (Pg. 175)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.