وہ ایک درخت
کھڑا ہی رہتا تھا
ہمیشہ ہمیشہ سے
کتنی بار بدلے موسم
کتنی کونپلیں پھوٹی
اور جانے کتنی بار سارے پتے سوکھ کر جھڑ گئے
اسے ایک دم ننگا کر
کھڑا رہا وہ پھر بھی
گھونسلے بنتے رہے
انڈے کچھ پھوٹے کچھ سانپوں نے ڈس لیے
اور جو پنپ سکے اس کی چھایا میں
وہ جس دن اونچا اڑ سکے اڑ چلے
کھڑا رہا وہ پھر بھی
بندھتا رہا منت کے لال دھاگوں سے
دبتا رہا مورتیوں کے بوجھ سے
ہلا تب بھی نہیں کھڑا رہا پھر بھی
پرسوں میں جب گیا اس کے پاس کچھ راحت کی آس لیے
تو دیکھا اس کو روتے ہوئے میں نے
کہہ رہا تھا کی تھک چکا ہے کھڑے کھڑے
اکتا چکا ہے
اپنی گہری جڑوں کی پکڑ ڈھیلی کر
بدلنا چاہتا ہے کچھ آب و ہوا
اب کون سمجھائے اسے
کہ کھڑے رہنا اس کا سوبھاؤ نہیں نیتی ہے اس کی
ہمیشہ ایسے ہی رہنا ہے اسے
دھوپ میں جلتے ہوئے
منت کے دھاگوں سے بندھتے ہوئے
بس ٹھہرے ہوئے بنا چلتے ہوئے
چیخ
کس قدر زور سے اٹھی
اور پھر رہ گئی گھٹ کر
ادب کی دیواروں سے ٹکرا کر
سوراخ کر گئی کتنے
اس بد بخت بد حواس اور بد حال دل میں
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.