دریا
خشک کیکر کے پیڑوں نے
لو کے تھپیڑوں نے
دھرتی کے بیتاب سینے سے
سرسبز دریا کی مورت
ابھرنے نہیں دی
منوں مٹی کے نیچے
بے شکل تودوں
سیہ رنگ پودوں کے ہم راہ دن کاٹتا ہوں
گزر گاہ صد رنگ
آنکھوں میں بستی ہے
گیلے کناروں پہ پیڑوں کے نیچے
دو آبے کی مہکار اڑتی ہے
میدانی دنیا کی جانب گزر گاہ مڑتی ہے
دریا کے گیلے کناروں پہ
تہذیب پلتی ہے
اپلوں کے پھولوں کے اوپر
دہکتے تووں پر
چھنکتے ہوئے سرخ ہاتھوں کی
چمکیلی پوریں ہیں
تہمد کے پھاٹوں میں
ابرق سی رانوں کی
رنگت چمکتی ہے
گہرے سلونے سمے ہیں
فلک کے ستارے ہیں
پیڑوں پہ پینگیں ہیں
پینگوں کے لمبے ہلارے ہیں
چادر میں ملفوف مدھم نشانوں میں مدہوش رہتا ہوں
دریا ہوں
اک سیل محبوس ہوں
اور اندھے بہاؤ کے اندھے تصور میں بہتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.