درس خودی
شبنم کا ایک قطرہ
بے بہرۂ خودی تھا
ٹپکا فلک سے شب کو
اور برگ گل پہ ٹھہرا
اس طرح تھا چمکتا
ہیرے کا جیسے ٹکڑا
کرتا تھا کھیل اس سے
موج صبا کا جھونکا
رنگیں ہوا تھا وہ بھی
جس طرح ہر کلی تھی
ملتی تھیں جب بھی شاخیں
رہ رہ کے تھا سنبھلتا
لیتا تھا برگ گل پر
دھیرے سے پھر سہارا
رنگ چمن تھا دیتا
اک دعوت نظارا
ہر چند رنج و صدمہ
اس کو نہیں ذرا تھا
لیکن کوئی سبب تھا
جو وہ لرز رہا تھا
رنگیں ہوا تھا وہ بھی
جس طرح ہر کلی تھی
شبنم سی زندگی کیا
بہتر ہے مر ہی جانا
خوددار ہو جہاں میں
ہیرے کا جیسے ٹکڑا
خورشید کا ہو پرتو
سامان خود بقا کا
بن آہ لخت آدم
الماس کا تو ٹکڑا
ہیرے کا ایک ٹکڑا
تشبیہ ہے خودی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.