دشت تمنا
تشنگی
تشنگی اور تشنگی
جانے کب تک
تشنگی سر پھوڑتی دشت تمنا میں رہی
راہ میں یوں تو کبھی آیا سراب
واہمے کا
نظریے کا
فلسفے کا
اور کبھی
رہ گزار شوق میں
کربلا بھی آ گیا
تھی جہاں جاری فرات زندگی
تشنگی کے لب مگر
ایک اک قطرے کو بھی ترسا کئے
ہو کے پھر تصویر یاس
تشنگی نے نوچ ڈالے اپنے بال
اپنے چہرے کو بھی زخمی کر لیا
آج لیکن
خود فرات زیست نے
رکھ دیا ہے اپنا سر
تشنگی کے پاؤں پر
مہکی مہکی سی ہوا ہے
روح پرور ہے سماں
کھل رہے ہیں
پھول لب پر
بج رہی ہیں
چار سو شہنائیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.