دشت ہی کافی ہے
سانس لینے کے لئے
قصر و کاشانہ ضروری تو نہیں
کوئی ویرانہ کوئی دشت ہی کافی ہے
جہاں
آسماں اور زمیں روز گلے ملتے ہیں
صبح دم باد صبا
شاخ در شاخ لٹاتی ہے نمی
خوشبو پھیلاتی ہے آنچل اپنا
کھلکھلاتی ہوئی دوشیزہ کلی کے رخسار
شوخ بھونرے کی نگاہوں سے شفق ہوتے ہیں
مخملیں پاؤں تلے
سبزۂ بالیدہ کوئی
چھمچھماتی ہوئی بارش میں نہا جاتا ہے
شام
درماندہ پرندوں کی پنہ گاہوں میں
قمقمے کرمک شب تاب کے روشن کر کے
شب کی آغوش میں سو جاتی ہے
ان گنت ہیروں کی ننھی کنیاں
جگمگا اٹھتی ہیں تاروں کے حسیں ماتھوں پر
چاند دودھ کٹورا لے کر
بوڑھی نانی کی کہانی میں سما جاتی ہے
کوئی آواز نہ ساز
کوئی نغمہ نہ الاپ
نہ کوئی بحث نہ تمحیص نہ تکرار کوئی
نہ سیاست نہ خباثت نہ شماتت کوئی
اختلافات سے دور
سارے مفادات سے دور
سب خرافات سے دور
چھل کپٹ جھوٹ نہ دھوکا نہ فریب
کوئی الجھن کوئی فتنہ نہ کوئی جھنجھلاہٹ
کوئی شکوہ نہ گلہ
فکر فردا نہ ہی اندیشۂ امروز کوئی
ایک انجان مسرت کی کرن
ان چھوئے خوابوں کی ٹھنڈی بوچھار
اجنبی سی کسی خواہش کا خمار
کسی بے نام سے احساس کا لمس
عرصۂ جاں میں اتر جاتا ہے
زندہ رہنے کا عمل
کتنا جاں بخش نظر آتا ہے
سانس لینے کے لئے
قصر و کاشانہ ضروری تو نہیں
کوئی ویرانہ
کوئی دشت ہی کافی ہے
مگر
دشت
وہ دشت
جسے دیکھ کے گھر یاد نہ آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.