دست ساقی سے پھر اک جام گرا
(مجاز کی موت پر)
گل و تبسم رنگیں کا اب گلہ نہ کرو
بہت اداس چمن سے نسیم گزری ہے
نہ جانے کون سی وادی سے ہو کے آئی تھی
قبائے گل سے الجھتی دو نیم گزری ہے
غضب ہوا بھری محفل میں دست ساقی سے
مے شبانہ سے لبریز جام چھوٹ گیا
اداس اداس ہے شعر و ادب کا مے خانہ
کہ آج ساغر رنگیں اک اور ٹوٹ گیا
بھری بہار کے دن تھے کہ اٹھ گیا کوئی
نگاہ شوق میں سو حسرتیں چھپائے ہوئے
گزر گیا کوئی چپکے سے مسکراتا ہوا
خود اپنے کاندھوں پہ لاش وفا اٹھائے ہوئے
اٹھا کئے ہیں یوں ہی مے کدہ سے دیوانے
ہم اپنے دل پہ یوں ہی داغ سہتے آئے ہیں
اسے نزاکت ساغر کہو کہ تندئ مے
شکست جام کو ہم موت کہتے آئے ہیں
کہاں وہ دور کہ ساقی کی بزم رنگیں میں
عروس زہد کو بخشی گئی قبائے شراب
کہاں یہ دور کہ محفل میں جام رنگیں سے
چھلک رہا ہے لہو ہی لہو بجائے شراب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.