گزر رہے ہیں گزرنے والے
لرزنے والے لرز رہے ہیں
لرزتے جھونکے
گزرتے بل کھاتے رینگتے سرسراتے جھونکے
نسائی ملبوس کی طرح سرسرانے والے
کڑکنے والی کی چابکوں سے
اگرچہ دور رواں کے آنسو ٹپک رہے ہیں
مگر نظر جس طرف بھی اٹھتی ہے دیکھتی ہے
گزر رہے ہیں گزرنے والے
یہ کون دبکا ہوا اس آوارہ راستے میں کھڑا ہوا ہے
کہ جیسے صابن کا کوئی رنگین بلبلہ ہو
زمیں کے بچپن میں جو بھی شے تھی وہ نا شناسائے آرزو تھی
شباب آیا تو رینگنے والی رینگ اٹھی
اور آج یہ حال ہے کہ ہر شے یہ چاہتی ہے
کہ ایک طوفان بن کے گرائے راستوں میں
یہ کون دبکا ہوا اس آوارہ راستے میں کھڑا ہوا ہے
کہ جس طرح بہتے بہتے آواز رک کے یہ سوچنے لگی ہو
کہ جوئے صحرا بہے گی کب تک
یہ زندگی ایک جوئے صحرا ہے بہہ رہی ہے
لرزنے والے لرز رہے ہیں
مگر نظر جس طرف بھی اٹھتی ہے دیکھتی ہے
گزر رہے ہیں گزرنے والے
- کتاب : Muntakhab Nazmen (Pg. 39)
- Author : idarah adab lateef
- مطبع : Maktaba Urdu lahore (1945)
- اشاعت : 1945
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.