دسمبر
دسمبر تو بہانا ہے
دسمبر دھند میں لیٹا
ہوا کے دوش پر
گہرے سمندر کی اتھاہ کو چھو کے آتا ہے
تو من کے بوڑھے برگد سے
محبت کے پرندے پھڑپھڑاتے
گرتے اٹھتے اور پھر اڑنے کی کوشش میں
جوں ہی پرواز کرتے ہیں
تو موسم یاد کی پھیلی ہتھیلی پر چٹخ کر ٹوٹ جاتا ہے
اداسی یاد کی جھنکار پہنے جاگ اٹھتی ہے
وہی جھنکار جو اکثر
صبح کاذب تلک مجھ کو سدا بیدار رکھتی تھی
میں اکثر سوچتا ہوں
دسمبر لوٹ جائے تو بہار آئے
بہار آئے تو غم پھوٹے
شگوفے کونپلیں جاگیں
اسی دوران سوچوں کے دروں خانہ سے اکثر
ہوک اٹھتی ہے
جو کہتی ہے
دسمبر کو ذرا آواز تو دینا
جدائی کا زمانہ ہے
ہمیں تو درد کے دہکے الاؤ پر ہی اب کہرہ جمانا ہے
دسمبر تو بہانہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.