اگلے وقتوں کے اک قصہ گو پیر کہنہ نے پھر
دشت بے ماجرا سے گزرتے ہوئے
نرم رو مہرباں خضر قامت مشینی فرشتے سے
یوں عرض کی
اے مشیں زاد
اب میری پیرانہ سالی کے موسم میں
ان داستانوں کی چادر دریدہ ہوئی
وہ جنہیں میں نے اپنی جوانی کے
رنگیں تخیل کی کھڈی پہ بن کر
کسی نیلمیں آنکھ میں
نظر کے واسطے رکھ دیا
یک بہ یک میرے چاروں طرف
وقت کی گرد ایسی اڑی
طاق نسیان پر
زرد ہوتی ہوئی
ہر حکایت دھری کی دھری رہ گئی
الغرض
بھول جانے کا اک عارضہ
جو مری جینیاتی وراثت میں لکھا گیا
مثل دست عدو
اب مجھے زیر کرنے کو ہے
اے مشیں زاد
مدت ہوئی
دشت بے ماجرا کی خموشی میں
کہنے کو کچھ بھی نہیں
بس یہی عرض ہے
اس خطا کار کو
ہفت اقلیم کے
با ہنر خوش زباں
جینیاتی رفوگر سے جلدی ملا دے
کہ میں اپنی بوسیدہ یادوں کی چادر مرمت کراؤں
اور اپنے قدیمی محلے کے
اک نیم تاریک سے قہوہ خانے میں
پھر اگلے وقتوں کے قصے سناؤں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.