دھند کے رشتے گہرے ہوتے جاتے ہیں
آواز نہیں جو آئے
اور کانوں کی بے کار ہوس پر
جلتے پانی کے چھینٹے دے
سوچ سکو تو سوچو
اور اس ڈولتے پل کی راکھ پر
اپنے الٹے سیدھے نام لکھو
شنکر درگا ودیا وجے سمترا
جو اب بھی ہے وہ کبھی نہ تھا
جو کبھی نہ تھا وہ اب بھی ہے
وہ اب بھی ہے اور تم اس کو پہچانتے ہو
جب دھند کا جھوٹ
تمہارے سر پر ناچے گا
تم روؤ گے
کسی کو اس کے نہ ہونے کا دوش نہ دو
وہ کون تھا
اپنے برسوں کے بھولے بسرے ایمان کی لجا
بھیگی مٹی میں بند کیے
اس دکھی زمین پہ ہار گیا
پہچانتے ہو
شاید
شاید تو پھر جانے دو
برے بھلے تو پیٹ کی کالی تہہ میں ہوتے ہیں
اور مٹیالی الجھن
اور جسم پہ کتنی سرد لکیریں
کھینچی جاتی ہیں
کوئی نہیں جورو کے
کوئی نہیں جورو کے
ابھلاشا کب پیدا ہوتی ہے
کتنی گھڑیاں روز بڑھاتی ہے
کتنی گھڑیاں روز گھٹاتی ہے
کب جاگتی ہے کب سوتی ہے
ابھلاشا درگا ہے
اور درگا ڈیزل پینا سیکھ گئی ہے
اس نے دودھیا کپڑے اور سنہرے گہنے
اتار دیئے ہیں
کھلونے اب بھی مل جاتے ہیں
پر دھرتی اناج سے خالی ہے
اور جیب میں خاک بھری ہے
خاک چھپا کر چلنا مشکل ہے
جب سڑکیں جاتی ہوں
جب دھوپ اور کوڑے کے دھبے
رفتار گھلاوٹ چھوٹے بڑے اجداد
سمے کے اڑتے ذروں کا
بے ضمیر بھی جاگ اٹھے
تو جیب کی تہہ میں
خاک چھپا کے چلنا مشکل ہے
شور ہی شور اور گونگے پاؤں
تازہ اخبار کے ٹکڑے دنیا
دروازے بند کرو
ننھے وجے سے کہہ دو وہ سو جائے
دوری صرف سسکتی دوری ہے
وہ کبھی نہیں بھلائے گی
دروازہ بند کرو اور چپ ہو جاؤ
دھند کے رشتے گہرے ہوتے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.