دھوپ کے سائے
شام دلہن کی طرح
اپنے رنگوں میں نہائی ہوئی شرمائی ہوئی بیٹھی ہے
گوشۂ چشم سے کاجل کی سیاہی ابھی آنسو بن کر
بہتے غازے میں نہیں جذب ہوئی
ابھی کوئی نہیں بالوں کی دل افروز پریشانی میں
مسکراتی ہوئی سیندور کی مانگ
گھلتے رنگوں میں ابھی کاہش جاں باقی ہے
گھلتے رنگوں کا کوئی کیا جانے
کب مٹیں کیسے مٹیں
شب کی تاریکیاں ہر سمت بکھر جائیں تو آرام ملے
یہ چمکتے ہوئے ذرے زمیں
ذوق تماشا نہ رہے
کوئی تمنا نہ رہے
اک کرن چھوڑ کے جاتی ہی نہیں
چشمکیں کرتی ہوئی کھیل رہی ہے اب تک
زرد رو گھاس کے سینے پہ تھرکتی ہوئی بڑھ جاتی ہے
سنگ ریزوں کی نگاہوں میں چمکتی ہوئی لوٹ آتی ہے
کوئی سمجھائے اسے جاؤ چلو جاؤ یہاں اب کیا ہے
دھوپ کے کانپتے سایوں کو ذرا بڑھنے دو
شب کی تاریکیاں چھا جانے دو
میں نے سو بار کہا ایک نہ مانی اس نے
مسکراتی ہوئی شاخوں پہ لرزتی ہی رہی
یوں بھی تڑپانے میں اک لطف تو ہے سوز تو ہے
رنگ گھلتے ہی کھلیں گے آخر
گھلتے رنگوں کا کوئی کیا جانے
کب ہٹیں کیسے مٹیں
اپنے رنگوں میں نہائی ہوئی شرمائی ہوئی
شام دلہن کی طرح بیٹھی رہی بیٹھی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.