کل رات نہ جانے کیوں کیسے
ایک عجیب سی خواہش ہونے لگی
وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے
اسی شہر کی خواہش ہونے لگی
وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے
اب اس کا نظارہ کیسا ہے
کس سے پوچھوں کیسے پوچھوں
ہر جان سے پیارا کیسا ہے
کیا اب بھی ہمارے ہمجولی
بے کار پڑے ہیں گاؤں میں
کیا اب بھی بیڑیاں لٹکی ہیں
ان دوڑنے والے پاؤں میں
کیا اب بھی پپیہا گاتا ہے
اس بوڑھے نیم کی گولی پر
کیا اب بھی موسم سرما میں
پھولوں کی نمائش ہوتی ہے
کیا اب بھی پتنگیں اڑتی ہیں
پاون چھٹ کے تہواروں میں
کیا اب بھی لوگ نہاتے ہیں
ساون کی پیاری پھواروں میں
کیا اب بھی لوگ نکلتے ہیں
ویسے ہی عید کے موقع پر
کیا اب بھی اپنے محلے میں
مہمان نوازی ہوتی ہے
کیا دن تھے وہ جو بیت گئے
کیا میرے سارے میت گئے
اے کاش کوئی لڑتا ہم سے
تم ہار گئے ہم جیت گئے
وہ اپنا بچپن کدھر گیا
وہ اپنی جوانی کہاں گئی
وہ شام جو پھر آئی ہی نہیں
وہ صبح سہانی کہاں گئی
کل رات گئی سب بات گئی
یعنی ساری سوغات گئی
بن موسم کے جو آئی تھی
مجھے رلا کے وہ برسات گئی
جب میں اس سے پوچھا تھا
اب شہر ہمارا کیسا ہے
کیا دھوپ میں بارش ہوتی ہے
کیاری خواہش ہوتی ہے
وہ ہنستے ہنستے رونے لگی
اور دھوپ میں بارش ہونے لگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.