دل فسانہ گر
فسانہ گر ہے دل مرا
ازل سے منتظر ہے
کب سجے پھر ایک بار
دشت کہکشاں میں وہ سخن سرائیوں کی شب
سفر سے پہلے ماہتاب چھیڑ دے کوئی غزل
غزل جو گنگنانے پر نہ پوری یاد آ سکے
یہ ہجر تیز گام ہے
بدن کی سلک ڈھل رہی ہے ریت سی
یہ روشنی پگھل رہی ہے ریت سی
ستارے ریگ ریگ ہیں
یہ سبز نیلے زرد تارے گھورتے ہیں مجھ کو یوں
کہ جیسے میرے قرمزی فراق نے کیا انہیں رواں رواں
خلائیں میرے ہر طرف
خلائیں سات جہت گھومتی ہوئی
خلائیں بارشوں کی لے پہ جھومتی ہوئی
مگر خلا میں بارشیں کہاں
تو پھر یہ کیا ہے بارشوں کے شور سا
خلا کے بن میں ناچتا ہے مور سا
وہ مجھ کو میرے آئنے میں چھپ کے دیکھتا ہے کیا
دل فسانہ گر بتا دوئی کی ایکتا ہے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.