نغمہ در جاں رقص برپا خندہ بر لب
دل تمناؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب
دل مرے صحرا نورد پیر دل
ریگ کے دل شاد شہری ریگ تو
اور ریگ ہی تیری طلب
ریگ کی نکہت ترے پیکر میں تیری جاں میں ہے
ریگ صبح عید کے مانند زرتاب و جلیل
ریگ صدیوں کا جمال
جشن آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال
شوق کے لمحات کے مانند آزاد و عظیم
ریگ نغمہ زن
کہ ذرے ریگ زاروں کی وہ پازیب قدیم
جس پہ پڑ سکتا نہیں دست لئیم
ریگ صحرا زرگری کی ایک کی لہروں سے دور
چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دور
ریگ شب بیدار ہے سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
ریگ شب بیدار ہے نگراں ہے مانند نقیب
دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ
ریگ ہر عیار غارت گر کی موت
ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت
ریگ جب اٹھتی ہے اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی سب شہنشاہوں کے خواب
ریگ اے صحرا کی ریگ
مجھ کو اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی
نئی تعبیر دے
ریگ کے ذروں ابھرتی صبح تم
آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روز طرب
دل مرے صحرا نورد پیر دل
آ چوم ریگ
ہے خیالوں کے پری زادوں سے بھی معصوم ریگ
ریگ رقصاں ماہ و سال نور تک رقصاں رہے
اس کا ابریشم ملائم نرم خو خنداں رہے
دل مرے صحرا نورد پیر دل
یہ تمناؤں کا بے پایاں الاؤ
راہ گم کر دوں کی مشعل اس کے لب پر آؤ آؤ
تیرے ماضی کے خذف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ
آگ کی قرمز زباں پر انبساط نو کے راگ
دل مرے صحرا نورد پیر دل
سرگرانی کی شب رفتہ سے جاگ
کچھ شرر آغوش صرصر میں ہیں گم
اور کچھ زینہ بہ زینہ شعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوئے
اور کچھ تہہ میں الاؤ کی ابھی
مضطرب لیکن مذبذب طفل کمسن کی طرح
آگ زینہ آگ رنگوں کا خزینہ
آگ ان لذات کا سر چشمہ ہے
جس سے لیتا ہے غذا عشاق کے دل کا تپاک
چوب خشک انگور اس کی مے ہے آگ
سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح
آگ کاہن یاد سے اتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں
آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں
دل مرا صحرا نورد پیر دل سن کر جواں
آگ آزادی کا دل شادی کا نام
آگ پیدائش کا افزائش کا نام
آگ کے پھولوں میں نسریں یاسمن سنبل شفیق و نسترن
آگ آرائش کا زیبائش کا نام
آگ وہ تقدیس دھل جاتے ہیں جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرم
عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب
یہ تمناؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
اس لق و دق میں نکل آئیں کہیں سے بھیڑیے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو
ریگ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ
بھیڑیوں کی چاپ تک آتی نہیں
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
آگ سے صحرا کے ٹیڑھے رینگنے والے
گرہ آلود ژولیدہ درخت
جاگتے ہیں نغمہ در جاں رقص برپا خندہ بر لب
اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشن ماہتاب
ان کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال
بیخ و بن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
رہروؤں صحرا نوردوں کے لیے ہے رہنما
کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ
اور صحراؤں کی تنہائی کو کم کرتی ہے آگ
آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے
افسانہ گو
جیسے گرد چشم مژگاں کا ہجوم
ان کے حیرت ناک دل کش تجربوں سے
جب دمک اٹھتی ہے ریت
ذرہ ذرہ بجنے لگتا ہے مثال ساز جاں
گوش بر آواز رہتے ہیں درخت
اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کبھی
یہ تمناؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ریگ اپنی خلوت بے نور و خودبیں میں رہے
اپنی یکتائی کی تحسیں میں رہے
اس الاؤ کو سدا روشن رکھو
یہ تمناؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ایشیا افریقہ پہنائی کا نام
بے کار پہنائی کا نام
یورپ اور امریکہ دارائی کا نام
تکرار دارائی کا نام
میرا دل صحرا نورد پیر دل
جاگ اٹھا ہے مشرق و مغرب کی ایسی یک دلی
کے کاروانوں کا نیا رویا لیے
یک دلی ایسی کہ ہوگی فہم انساں سے ورا
یک دلی ایسی کہ ہم سب کہہ اٹھیں
اس قدر عجلت نہ کر
اژدہام گل نہ بن
کہہ اٹھیں ہم
تو غم کل تو نہ تھی
اب لذت کل بھی نہ بن
روز آسائش کی بے دردی نہ بن
یک دلی بن ایسا سناٹا نہ بن
جس میں تابستاں کی دوپہروں کی
بے حاصل کسالت کے سوا کچھ بھی نہ ہو
اس جفا گر یک دلی کے کارواں یوں آئیں گے
دست جادو گر سے جیسے پھوٹ نکلے ہوں طلسم
عشق حاصل خیز سے یا زور پیدائی سے جیسے ناگہاں
کھل گئے ہوں مشرق و مغرب کے جسم
جسم صدیوں کے عقیم
کارواں فرخندہ پے اور ان کا بار
کیسہ کیسہ تخت جم اور تاج کے
کوزہ کوزہ فرد کی سطوت کی مے
جامہ جامہ روز و شب محنت کا خے
نغمہ نغمہ حریت کی گرم لے
سالکو فیروز بختو آنے والے قافلو
شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے
ریت کے سرحد پہ جو روح ابد خوابیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے شکوہ ہائے نے سے وہ
ریت کی تہہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے حریت کی لے سے وہ
اتنی دوشیزہ تھی اتنی مرد نا دیدہ تھی صبح
پوچھ سکتے تھے نہ اس کی عمر ہم
درد سے ہنستی نہ تھی
ذروں کی رعنائی پہ بھی ہنستی نہ تھی
ایک محجوبانہ بے خبری میں ہنس دیتی تھی صبح
اب مناتی ہے وہ صحرا کا جلال
جیسے عز و جل کے پاؤں کی یہی محراب ہو
زیر محراب آ گئی ہو اس کو بے داری کی رات
خود جناب عز و جل سے جیسے امید زفاف
سارے ناکردہ گناہ اس کے معاف
صبح صحرا شادباد
اے عروس عز و جل فرخندہ رو تابندہ کھو
تو اک ایسے حجرۂ شب سے نکل کر آئی ہے
دست قاتل نے بہایا تھا جہاں ہر سیج پر
سینکڑوں تاروں کا رخشندہ لہو پھولوں کے پاس
صبح صحرا سر مرے زانو پہ رکھ کر داستاں
ان تمنا کے شہیدوں کی نہ کہہ
ان کی نیمہ رس امنگوں آرزوؤں کی نہ کہہ
جن سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
شہد تیرا جن کو نش جاں نہیں
آج بھی کچھ دور اس صحرا کے پار
دیو کی دیوار کے نیچے نسیم
روز و شب چلتی ہے مبہم خوف سے سہمی ہوئی
جس طرح شہروں کی راہوں پر یتیم
نغمہ بر لب تاکہ ان کی جاں کا سناٹا ہو دور
آج بھی اس ریگ کے ذروں میں ہیں
ایسے ذرے آپ ہی اپنے غنیم
آج بھی اس آگ کے شعلوں میں ہیں
وہ شرر جو اس کی تہہ میں پر بریدہ رہ گئے
مثل حرف ناشنیدہ رہ گئے
صبح صحرا اے عروس عز و جل
آ کہ ان کی داستاں دہرائیں ہم
ان کی عزت ان کی عظمت گائیں ہم
صبح ریت اور آگ ہم سب کا جلال
یک دلی کے کارواں ان کا جمال
آؤ
اس تحلیل کے حلقے میں ہم مل جائیں
آؤ
شاد باغ اپنی تمناؤں کا بے پایاں الاؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.