دل
پوچھو نہ مجھ سے عشق میں کیا ہو گیا ہے دل
سر چشمۂ خلوص و وفا ہو گیا ہے دل
میں اس کے جذب شوق کی تاثیر کیا کہوں
تجھ سا ہی اب تو نام خدا ہو گیا ہے دل
کیا ڈھونڈھتی ہے سینہ میں اب او نگاہ ناز
مدت ہوئی کہ صرف وفا ہو گیا ہے دل
کیا لطف ہے کہ سارے زمانے کی ہے خبر
اس کی خبر نہیں ہے کہ کیا ہو گیا ہے دل
اک اضطراب شوق کہ اک شوق اضطراب
مجھ کو خبر نہیں ہے کہ کیا ہو گیا ہے دل
مانا کہ برق حسن بہت بے قرار ہے
اس سے بھی کچھ تڑپ میں سوا ہو گیا ہے دل
اب بے سبب بھی اشک بھر آتے ہیں آنکھ میں
کچھ اس طرح کا درد بھرا ہو گیا ہے دل
ٹوٹے ہوئے دلوں نے رلایا ہے اس قدر
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گیا ہے دل
یہ سچ ہے دل وہ خوب ہے جو با خدا رہے
یوں بھی مگر ہوا ہے خدا ہو گیا ہے دل
پھر کیوں ہے اس غریب کے سر تہمت خودی
جو تیری مصلحت نے کہا ہو گیا ہے دل
نیرنگئ جہاں کی ہے ساری خبر اسے
پھر بھی اسیر حرص و ہوا ہو گیا ہے دل
بیٹھا ہوں رو کے دل کو جو میں ان دنوں جلیلؔ
ہلکا مثال موج صبا ہو گیا ہے دل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.