پل ہی پل میں یہ سارا تماشا ہوا
شہر کے پانو میں سنسناتی ہوئی
ایک گولی لگی
اور وہ چکرا کے
دھرتی پہ اوندھا گرا
دیکھتے دیکھتے اس کے چاروں طرف
خون کا ایک تالاب سا بن گیا
جھاڑیوں سے ڈری سہمی چڑیاں اڑیں
اونچے اونچے درختوں کے
گنجان پتوں میں دبکے ہوئے
سب پرندے اڑے
چیختے چیختے
اور دہشت زدہ آسمانوں
کے صحراؤں میں کھو گئے
خون کا ایک چھوٹا سا تالاب ہے
اس میں چپ چاپ اوندھا پڑا شہر ہے
کاش دے کر ذرا سا سہارا اسے
اب اٹھا لے کوئی
اس کی ایڑی کی ہڈی میں اٹکی ہوئی
گرم زہریلی گولی نکالے کوئی
شہر زندہ ہے اب تک
بچا لے کوئی
- کتاب : aazaadii ke baad delhi men urdu nazm (Pg. 264)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.