دلی کا پرانا قلعہ
زمانے ڈھل گئے حالات کی تحریر باقی ہے
پرانے حسن کی ٹوٹی ہوئی تصویر باقی ہے
نہ وہ شمشیر باقی ہے نہ وہ توقیر باقی ہے
مگر تاریخ میں لپٹی ہوئی تعمیر باقی ہے
فضائے ہست کے راہی مقام بود پر پہنچے
نقوش رہ گزر میں پرتو رہ گیر باقی ہے
جو شہرت عام تھی پہلے گئی صدیوں کے مدفن میں
مگر آثار میں سمٹی ہوئی تشہیر باقی ہے
بقا کے خواب سارے ڈھل گئے خواب مسلسل میں
یہ ان خوابوں کی پتھرائی ہوئی تعبیر باقی ہے
مذاق عام صرف کم نگاہی ہے تو رہنے دو
دل شاعر کی آنکھوں میں ابھی تنویر باقی ہے
طلائی نقرئی جذبات کے سانچے میں ڈھلنے کو
رگ تخئیل پر اک نشتر تاثیر باقی ہے
یہ بنیادوں کی گہرائی یہ دیواروں کی بے باکی
جہاں تمہید قائم ہے وہیں تعمیر باقی ہے
یہ مضبوطی کی انگڑائی یہ بل کھاتی فصیل سنگ
وہی اک آہنی فطرت وہی زنجیر باقی ہے
کمیں گاہوں کی پیشانی کنکھیوں سے مرصع ہے
تحفظ کی کڑی آنکھوں کی کچھ تاثیر باقی ہے
یہ بے ترتیب پتھر جھاڑیاں کھڈے یہ ہریالی
کہیں آغوش فطرت ہے کہیں تعمیر باقی ہے
سرشک یاد نا ممکن سہی دنیا کی آنکھوں میں
زبان حال پر اک عالم تقدیر باقی ہے
یہ خلوت زار رومانوں سے وابستہ رہے یا رب
کہ تدبیروں کی گردن پر ابھی تقدیر باقی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.