فرق کچھ بھی نہیں
چاہے کسی بھی سمت چلوں
شہر کا دشت گھنا اور گھنا ہوتا ہے
نیم تاریک گلی
جس میں لگا اک کھمبا
زردی خاص سے رنگتا ہے گلی کے کنکر
جھک گیا ہے جو کسی پیر خمیدہ کی طرح
دم بہ دم جل کے بجھا
بجھ کے جلا
کیا کہیے
بس یہی شے ہے جسے شہر کا جگنو کہہ دوں
سوچتا ہوں میں کبھی یوں بھی کہ اس دنیا میں
بے معانی ہے
مرا وجد میں آ جانا بھی
بے معانی ہے
معانی کی توقع کرنا
ایک جنگل ہے کہ جس میں مرے آ جانے سے
فرق کچھ بھی نہیں
چاہے کوئی بھی راہ چنوں
یہ جگہ بھول بھلیا ہے
مگر رستوں سے
میں بھی مانوس ہوں
دنیا بھی ہے
سب لوگ بھی ہیں
اور اک لمحۂ بے سود کو جینے کے لیے
سبھی کوشاں ہیں
سبھی جی رہے ہیں جینے کو
اور میں بھیڑ میں تنہا ہوں
ٹھگا سا
پھر بھی
آج میں بھی ہوں اسی بھیڑ کا حصہ بھر
بس
میں سوالوں سے عقیدوں پہ لڑھک آیا ہوں
دھندھ ہے ذہن میں
پستی کا مجسم ہے بدن
کوئی آواز نہاں
مجھ سے دوبارا نہ کہے
جاگ کر بھی نہ اٹھے بستر دنیا سے کیوں
تم معانی کے مسافر تھے
مسافر ہی تو تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.