دن گنے جا چکے ہیں
کسی رات پورے بھی ہو جائیں گے
وہ سبھی خواب
جو ہم نے دیکھے نہیں تھے
چرائے تھے
اک ادھ کھلی آنکھ سے
ہم نے دیکھے ہوئے خواب دیکھے
ہم نے بیتے ہوئے اک بدن کو دوبارہ جیا
رات بھر پینے والوں کی الٹی ہوئی
اس صراحی سے ٹپکی ہوئی
قطرہ قطرہ شراب حلق تک آ گئی
تو کھلا
زندگی تلخ ہے
سانس لینے کی قیمت ادا کرنا ممکن نہیں
مستقل اور ہمیشہ کے چکر میں سر گھوم جائے گا دنیا کی جغرافیائی حدوں پر
الجھتے ہوئے جانور کو خبر ہی نہیں سب الٹ جائے گا فلسفے سے الجھتی
ہوئی کھوپڑی میں ابلتا ہوا یہ دماغ ایک دن بھک سے اڑ جائے گا بھوک اور
جنسیت پر مزے لینے والوں کو معلوم ہے روشنی اور اندھیرے میں کیا فرق ہے
دن گنے جا چکے ہیں روشنی کے اندھیرے کے خوابوں کے اور اس بدن کے جسے ہم
دوبارہ سے جینے کی خواہش میں زندہ ہوئے ہیں مگر زندگی تلخ ہے سانس لینے
کی قیمت ادا کرنا ممکن نہیں دن گنے جا چکے ہیں