دن گزرتا نظر نہیں آتا
دن گزرتا نظر نہیں آتا
رات کاٹے نہیں کٹتی
رات اور دن کے اس تسلسل میں
عمر بانٹے سے بھی نہیں بٹتی
تیری آواز میں تارے سے کیوں چمکنے لگے
کس کی آنکھوں کے ترنم کو چرا لائی ہے
کس کی آغوش کی ٹھنڈک پہ ڈاکا ڈالا ہے
کس کی بانہوں سے تو شبنم کو اٹھا لائی ہے
دن بہرحال بہر طور گزر جاتا ہے
شام آتی ہے تو عجب رنگ لے کے آتی ہے
ایک تنہائی جو موت کی طرح خاموش
ہر نئی شام نیا بھیس بدل آتی ہے
ہاں کوئی اور ہوگا تو نے جو دیکھا ہوگا
ہم نہیں آگ سے بچ بچ کے گزرنے والے
سحر نصیب میں ہو تو سحر ملے گی ضرور
وگرنہ زندگی کٹ جائے گی بس رات کی رات
نہ انتظار نہ آہٹ نہ تمنا نہ امید
زندگی ہے کہ یوں بے حس ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.