جانے کتنی صدیوں سے
چل رہی ہے یہ دنیا
منزلیں نہیں ہوتیں
صرف نام ہوتے ہیں
آدمی نہیں چلتے
صرف سائے ہلتے ہیں
سرد سونے کمروں میں
چیونٹیوں کی صورت سے
رینگتے ہوئے سائے
گھٹ رہے ہیں برسوں سے
کاش ایسا ہو جائے
صاف ستھرا سا کوئی
آسمان مل جائے
کیسے پیڑ تھے جن کی
ٹھنڈی چھاؤں میں ہم نے
وقت کچھ گزارا تھا
یہ زمین اپنی ہے
آسماں ہمارا ہے
کتنی جھوٹی باتوں کا
بوجھ سر پہ لادا تھا
پیاس اک سمندر ہے
خواہشوں کے جنگل میں
برف جم رہی تھی اب
دھوپ پھر نکل آئی
زندگی تو دھوکا ہے
وقت ہے نہ موقع ہے
دن کی آنکھ میں کنکر
سورجوں کی دھرتی پر
جا رہے ہیں زور آور
کون جیت پائے گا
کون ہار جائے گا
یہ صداؤں کے پتھر
تیری رہ گزاروں میں
کھو گئے ہیں جو لمحے
یاد تک نہیں آتے
وقت ہی نہیں ملتا
رات دن کے پیچھے ہے
ٹوٹے پھوٹے رستوں پر
کتنی دور تک چلتے
تھک کے سو گئے ہوں گے
لوگ کھو گئے ہوں گے
کون آئے گا چھوڑو
بند کر لو دروازہ
سو گئی ہیں سڑکیں بھی
کس طرح سمائے گی
میرے گھر میں تنہائی
میں نے جیب میں بھر لی
روشنی سمندر کی
میری کھوج میں دھرتی
ہر دشا میں جائے گی
نیند کے دھندلکوں میں
آنکھ کھلتے تک یوں ہی
انتظار کرنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.