دو لفظوں کی دوری پر چاہتوں کے موسم
یاد ہے اس نے مجھ سے کہا تھا
جاناں
بیٹھو
آج بڑے دن بعد آئی ہو
شاید تم تو ان گلیوں کو ان رستوں کو دروازوں کو
اک مدت سے بھول چکی ہو
رشتوں کے دروازوں سے دروازے ملتے ہیں
اور دیواریں دیواروں سے
آنکھوں سے اوجھل ہونے سے
رشتے کم نہیں پڑ جاتے
اس نے کہا پھر
بیٹھو جاناں چائے پیو گی
آج تمہیں میں اپنے ہاتھ کی چائے لا کر دیتا ہوں
پی کر مجھے بتانا تم
کیسی ہے یہ
جانتی ہو نا مجھے
بھلکڑ سا ہوں میں
چیزیں اکثر رکھ کر کہیں پہ بھی
کھو جاتا ہوں
سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں
یاد نہیں رہتا ہے اکثر
چینی ڈالی ہے یا پھیکی
لیکن چھوڑو میری گمشدگی کی باتیں
چائے پی کر بتلانا تم
اس میں میٹھا کم یا زیادہ
یا پھیکی ہے
میٹھا ڈالنا بھول گیا ہوں
یا پھر
اس کے چہرے پر آئی
اس ایک تمنا کی وہ رنگت
شادابی میں دیکھ رہی تھی
اس کی آنکھیں میرے لبوں سے
داد طلب تھیں
اس کی آنکھیں ڈھونڈ رہی تھیں جانے کیا
میری آنکھوں میں
اس نے کہا پھر
جاناں
چائے میٹھی ہوئی تو تم جیسی ہے
پھیکی ہوئی تو مجھ جیسی
ہنستے ہنستے چائے کا پھر سپ لیا میں نے
اس کا دھیان بٹا کر
پھر باتوں باتوں میں میں نے
اس کا کپ بھی پی ڈالا
اس چہرے کی شادابی
کے مرجھانے سے پہلے پہلے
اس اک پھول کے کمہلانے سے پہلے پہلے
چاہت کے موسم کی سرحد
میٹھے پھیکے
دو لفظوں کی دوری پر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.