دو آر ڈائی
گئے زمانوں کی گردشوں کو میں آنکھ کی پتلیوں میں رکھوں
میں کب تلک ہونے اور نہ ہونے کے درمیاں کی اذیتوں کی خراش
اپنے بدن پہ دیکھوں
میں کس لئے بام پر سجاؤں کنواری شرمیلی دھڑکنیں اب
میں کیسے اپنے لبوں کی خوشبو کا بار لے کر صنوبروں کا سماں بناؤں
میں کس لئے رادھا بن کے ناچوں تو شام مرلی کے گیت گاؤں
کہاں کا ساون کہاں کی چتری کہاں کے دوہے کہاں کی پروا
میں سات رنگوں کو کس پہ پھینکوں
میں مجلسوں میں کس حسین کے نوحے گاؤں
میں موسموں کے سراغ لے کر حقیقتوں کو کہاں تک شاعری میں ڈھالوں
مرے عزیزو سفر ہے تھوڑا تو روگ زیادہ
بلا سے کوئی نہ آئے اب انتظار مک گیا ہے
ہوائیں کل کی کہانیوں کو سجا رہی ہیں
میں تیز تر اور جدید عہدوں میں جی رہی ہوں
میں آج ہوں اور آج بن کے بکھر رہی ہوں ہر ایک سمت
میرا ہے کلمہ ڈو آر ڈائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.