اک کہکشاں سجی تھی کبھی آسمان پر
اس کہکشاں کے سارے ستارے بکھر گئے
خوابوں کے ساتھ ساتھ نظارے بکھر گئے
پیچیدہ تر مسائل شبہائے زیست ہیں
مینار روشنی کے دھندلکوں میں کھو گئے
مڑ کر جو دیکھا وقت کو پتھر کے ہو گئے
اب کارواں کو سمت سفر کا ہے مرحلہ
سب سنگ میل راہ وفا کے اکھڑ گئے
تاریخ کی ڈگر کے مسافر بچھڑ گئے
تپتی ہوئی زمین شعور حیات ہے
پیپل کی چھاؤں درد کا سورج نگل گیا
برگد کا کوئی پیڑ چمن میں نہیں رہا
خون جگر سے حرف کا چہرہ دمک اٹھے
اب فن کی سرحدوں کا تعین کرے کوئی
دامان زندگی کو مزین کرے کوئی
معیار و اعتبار ادب تیرگی میں ہے
ہے شہر فکر دیر سے شب کی پناہ میں
ذرات نور ڈھونڈئیے اب گرد راہ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.